تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لئے باہر تشریف لائے تاکہ ہمیں شب قدر کی اطلاع فرماویں مگر دو مسلمانوں میں جھگڑا ہو رہا تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ: ((خَرَجْتُ لِاُخْبِرَکُمْ بِلَیْلَۃِ الْقَدْرِ فَتَلاَحٰی فُلَانٌ وَفُلَانٌ فَرُفِعَتْ وَعَسٰی اَنْ یَّکُوْنَ خَیْرًا لَّکُمْ فَالْتَمِسُوْہَا فِی التَّاسِعَۃِ وَالسَّابِعَۃِ وَالْخَامِسَۃِ)) [مشکوۃ شریف و بخاری شریف] ’’میں اس لئے آیا تھا کہ تمہیں شب قدر کی خبر دوں مگر فلاں فلاں شخصوں میں جھگڑا ہو رہا تھا جس کی وجہ سے اس کی تعیین اٹھا لی گئی‘ کیا بعید ہے کہ اٹھا لینا اللہ کے علم میں بہتر ہو‘ لہٰذا اب اس رات کو نویں اور ساتویں اور پانچویں رات میں تلاش کرو۔‘‘ جھگڑے کی نحوست اس حدیث میں تین مضامین قابل غور ہیں سب سے پہلے اہم وہ جھگڑا ہے جو دو مسلمانوں میں ہو رہا تھا اور یہ اس قدر سخت بری چیز ہے کہ اس کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے شب قدر کی تعیین اٹھا لی گئی اور صرف یہی نہیں بلکہ جھگڑا ہمیشہ برکات سے محرومی کا سبب ہوا کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ تمہیں نماز روزہ صدقہ وغیرہ سب سے افضل چیز بتائوں؟ صحابہؓ نے عرض کیا ضرور۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ آپس کا سلوک سب سے افضل ہے اور آپس کی لڑائی دین کو مونڈنے والی ہے‘ یعنی جیسے استرے سے سر کے بال ایک دم صاف ہو جاتے ہیں‘ آپس کی لڑائی سے دین بھی اسی طرح صاف ہو جاتا ہے۔ بدترین سود آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کی آبروریزی کو بدترین سود اور خبیث ترین سود ارشاد فرمایا‘ لیکن ہم لوگ لڑائی کے زور میں نہ مسلمان کی آبروریزی کی پرواہ کرتے ہیں‘ نہ اللہ اور اس کے سچے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات کا خیال ہے۔ کافر اور کینہ ور کی مغفرت نہیں ہوتی ایک جگہ ارشاد ہے کہ شب برات میں اللہ کی رحمت عامہ مخلوق کی طرف متوجہ ہوتی ہے (اور ذرا ذرا سے بہانے سے) مخلوق کی مغفرت فرمائی جاتی ہے‘ مگر دو شخصوں کی مغفرت نہیں ہوتی‘ ایک کافر‘ دوسرا وہ جو کسی سے کینہ رکھے۔ آپس میں لڑنے والوں کی نماز قبول نہیں ہوتی ایک جگہ ارشاد ہے کہ تین شخص ہیں جن کی نماز قبولیت کے لئے ان کے سر سے ایک بالشت بھی اوپر نہیں جاتی جن میں آپس کے لڑنے والے بھی فرمائے ہیں [فضائل رمضان المبارک ص ۴۳] جھگڑنے والوں کے نام بعض حضرات فرماتے ہیں کہ وہ دو اشخاص جو اس موقع پر جھگڑنے لگے تھے‘ ان میں ایک کا نام عبد اللہ ابن ابی حدرد اور دوسرے کا نام کعب ابن مالک (w)تھا۔ شب قدر کی تعیین اٹھا لینے کا مطلب ’’شب قدر کی تعیین اٹھا لی گئی‘‘کا مطلب یہ ہے کہ ان دو اشخاص کے جھگڑنے کی وجہ سے شب قدر کی تعیین کا علم میرے ذہن سے محو کر دیا گیا‘ اس سے معلوم ہوا کہ آپس میں جھگڑنا اور منافرت اور دشمنی اختیار کرنا بہت بری بات ہے‘ اس کی وجہ سے آدمی برکات اور بھلائیوں سے محروم ہو جاتا ہے۔