تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حساب میں صدقہ فطر دینا درست نہیں ہے۔ . جب تک کسی شخص کے صدقہ فطر کے مستحق ہونے کی تحقیق نہ ہو جائے اس وقت تک اس کو صدقہ نہیں دینا چاہئے۔ اگر بے تحقیق دیدیا پھر معلوم ہوا کہ وہ غریب ہی ہے تب تو ادا ہو گیا ورنہ دیکھو کہ دل کیا گواہی دیتا ہے۔ اگر دل اس کے غریب ہونے کی گواہی دے تو ادا ہو گیا ورنہ پھر سے ادا کرے۔ [شامی] / ایک شہر سے دوسرے شہر میں صدقہ فطر بھیجنا مکروہ ہے ہاں اگر دوسرے شہر میں اس کے غریب رشتہ دار رہتے ہوں یا وہاں کے لوگ زیادہ محتاج ہوں یا وہ لوگ دین کے کام میں لگے ہوئے ہوں تو ان کو بھیج دیا تو مکروہ نہیں۔ کیونکہ طالب علموں اور دین دار غریب عالموں کو دینا بڑا ثواب ہے۔ [در مختار] عید الفطر جاننا چاہئے کہ اسلام نے سال بھر میں عید کے صرف دو دن مقرر کئے ہیں۔ ایک عید الفطر کا دن اور دوسرا عید الاضحیٰ کا اور ان دونوں عیدوں کو ایسی اجتماعی عبادات کا صلہ قرار دیا ہے جو ہر سال انجام پاتی ہیں۔ اس لئے ان عبادات کے بعد ہر سال یہ عید کے دن بھی آتے رہتے ہیں۔ عید الفطر تو رمضان المبارک کی عبادات فاضلہ صوم و صلوٰۃ وغیرہ کی انجام دہی کے لئے توفیق الٰہی کے عطا ہونے پر اظہار تشکر و مسرت کے طور پر منائی جاتی ہے اور عید الاضحیٰ اس وقت منائی جاتی ہے جبکہ مسلمانان عالم اسلام کی ایک عظیم الشان اجتماعی عبادت یعنی حج کی تکمیل کر رہے ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ عبادات کے اختتام اور انجام پانے کی خوشی کوئی دنیوی خوشی نہیں ہے جس کا اظہار دنیاوی رسم و رواج کے مطابق کر لیا جاتا ہے۔ یہ ایک دینی خوشی ہے اور اس کے اظہار کا طریقہ بھی دینی ہی ہونا چاہئے۔ اس لئے اس میں اظہار مسرت اور خوشی منانے کا اسلامی طریقہ یہ قرار پایا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر بجا لایا جائے اور بطور شکر کے عید الفطر کے دن صدقہ فطر ادا کیا جائے اور عید الاضحیٰ میں بارگاہ خداوندی میں قربانی پیش کی جائے اور اپنے خالق کی کبریائی اور عظمت و توحید کے گیت گاتے ہوئے عید گاہ میں جمع ہو کر اجتماعی طور پر سجدہ ریز ہو جائے اور اس طرح اپنے مالک کی توفیق و عنایات کا شکر ادا کیا جائے۔ اس اسلامی طریقہ پرعید منانے کا طبعی اثر یہ ہونا چاہئے کہ مسلمان اپنی مسرت و خوشی کے اظہار میں بے لگام ہو کر نفسانی خواہشات کے تابع پڑنے سے باز رہے اور دوسری قوموں کی طرح اس دن میں عیش و نشاط کی محفلیں آراستہ کرنے اور لذت و سرور میں بدمست ہو کر خدا فراموشی سے پرہیز و اجتناب کرے۔ مقصد یہ ہے کہ عید کا دن مسلمانوں کے لئے ہنود و یہود اور عیسائیوں وغیرہ اقوام عالم کے قومی تہواروں کی طرح کا کوئی تہوار نہیں ہے اور نہ ایک دفعہ پیش آنے والے کسی تاریخی واقعہ کی یادگار کے طور پر ہر سال منایا جاتاہے۔ جیساکہ عموماً دوسری قوموں کے تہوار ایسے ہی واقعات تاریخیہ کی یادگار ہوتے ہیں بلکہ یہ دن مسلمانوں کی عبادت کا ہے اور اس کو منانے کے لئے خاص شان و صفت کی عبادت نماز کو مقرر کیا گیا ہے یہاں تک کہ جو مسلمان اس دن میں عمدہ لباس پہنتا اور ظاہری زیبائش و آرائش کرتا ہے اس کا مقصد اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کے ساتھ عید گاہ میں پہنچ کر شکرانہ کے