تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حفظ قرآن بچپن ہی میں اچھا ہوتا ہے بڑے ہو کر ویسا حفظ نہیں ہوتا جیسا بچپن میں ہوتا ہے اور یقینا بچپن میں بچہ معانی قرآن سمجھنے کے قابل نہیں ہوتا تو جو لوگ بدوں معانی سمجھے الفاظ قرآن پڑھنے کو بیکار کہتے ہیں‘ اب اگر ان لوگوں کے مشورے پر بچوں کو قرآن نہ پڑھایا جائے تو اس کا انجام یہی ہو گا کہ حفظ کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ یہ لوگ حق تعالیٰ کا مقابلہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قرآن کے حافظ پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ محفوظ رہے اور یہ لوگ دنیا سے حفظ قرآن کو مٹانا چاہتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا حفاظ قرآن سے عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو قرآن کے حفاظ سے اس قدر عشق تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم خود تو تلاوت کرتے ہی تھے ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ مجھے قرآن سناؤ۔ انہوں نے عرض کیا : ((علیک اقراء وعلیک انزل)) [اوکما قال] ’’کیا حضور کو میں سناؤں حالانکہ آپ ہی پر تو قرآن اترا ہے۔‘‘ فرمایا ہاں میں دوسرے کی زبان سے سننا چاہتا ہوں۔ آخر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابی کو یہ ارشاد کیوں فرمایا؟ حالانکہ سارا قرآن انحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو حفظ تھا اور اس کے معانی بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذہن مبارک میں حاضر تھے۔ صرف اس لیے کہ قرآن کے الفاظ سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو عشق تھا اور دوسرے سے سننے میں بوجہ یکسوئی کے زیادہ مزہ آتا ہے۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ صرف الفاظ قرآن بھی بدوں لحاظ معنی کے مطلوب و مقصود ہیں۔ صاحبو! اس سے بڑھ کر الفاظ قرآن کا نفع اور کیا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ قرآن پڑھنے والے کی قرأۃ کی طرف بہت توجہ فرماتے ہیں اور اس کو نہایت توجہ سے سنتے ہیں اس سے بھی الفاظ کا مقصود ہونا ظاہر ہے کیونکہ قرأت اور استماع الفاظ کے متعلق ہے نہ کہ معانی کے متعلق۔ تمام عبادات کا مقصود اور الفاظ قرآن کا تعلق علاوہ ازیں اصل مقصود تمام طاعات سے قرب حق ہے حق تعالیٰ کے یہاں سے اولاً الفاظ آئے ہیں اور معانی ان کے تابع ہو کر آئے ہیں پس الفاظ کو اللہ تعالیٰ سے قرب زیادہ ہوا۔ بفرض محال اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگر ایسے الفاظ عطا کئے جاتے جن کے معانی بالکل قابل فہم نہ ہوتے تو بھی محبان خدا (اللہ سے محبت کرنے والوں) کے رقص کرنے کے لیے یہی بات کافی تھی کہ محبوب کا عطیہ اور اس کا تحفہ ہے۔ کیونکہ محبوب اگر عاشق کو کوئی چیز دے تو اس میں دو لذتیں ہوتی ہیں۔ ایک لذت تو محبوب کے ہاتھ سے ملنے کی ہے۔ دوسری لذت اس چیز کے استعمال کرنے کی پھر عشاق الٰہی کے لیے تو الفاظ قرآن ہی رقص کے واسطے کافی تھے۔ اس لیے کہ وہ عطیہ محبوب ہیں اور وہ اولاً بالذات ہم کو ملے ہیں گو ان میں معانی بھی نہ ہوتے۔ مگر معانی کے ساتھ دو لذتیں جمع ہو گئیں تو اب یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ لذت معانی سے لذت الفاظ کو چھوڑ دیا جائے بلکہ دونوں لذتیں قابل لحاظ ہیں۔ اور الفاظ کی لذت اس لیے بہت زیادہ قابل لحاظ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اولاً آتے ہیں۔ گویا باعتبار قصد کے معانی اصل ہیں اور الفاظ ان کے تابع ہیں۔