تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ملحوظ نہ ہو۔ جب ہر امر میں تناسب کا حکم ہے تو نماز کے اندر کیوں نہ ہوگا۔ پس تراویح اور غیر تراویح اور ہر نماز میں تناسب کی رعایت رکھو‘ (یعنی ایسا نہ ہو کہ ایک رکعت بہت لمبی اور ایک مختصر) [التہذیب] حفاظ اور ائمہ کو مسائل سے واقف ہونا ضروری ہے حفاظ کو مسائل جاننے کی سخت ضرورت ہے بعض حافظ بہت جاہل ہوتے ہیں‘ تعجب نہیں بلکہ غالب ہے کہ سجدہ سہو کے مسائل کی بھی ان کو خبر نہ ہو۔ جو شخص مسائل سے واقفیت نہ رکھتا ہو اس کوامام بنانا مناسب نہیں۔ امام یا تو عالم ہو یا علماء کا صحبت یافتہ ہونا چاہئے اور اگر یہ دونوں باتیں نہ ہوں تو وہ ضرور نمازکوخراب کرے گا۔ میرے سامنے خود ایک ایسا موقع پیش آیا کہ ایک مرتبہ میں اور میرے ایک ساتھی ایک مسجد میں گئے‘ گرمیوں کا رمضان تھا۔ حافظ صاحب نے ایک رکعت میں آدھا پارہ گھسیٹا ان کو یاد تو رہا نہیں کہ ایک رکعت ہوئی یا دو‘ وہ ایک ہی رکعت پر بیٹھ گے‘ مقتدی بچارے تھکے ہوئے تھے انہوں نے بھی غنیمت سمجھا یا یاد نہ رہا ہو گا‘ کسی نے نہ بتایا میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ تم شریک ہو کر بتائو لیکن انہوں نے جلدی سے سلام پھیر دیا‘ میں نے پکار کر کہا کہ حضرت ایک رکعت ہوئی ہے‘ نماز کا اعادہ کیجئے اور یہ جو قرآن آدھا پارہ پڑھا ہے اس کو بھی پھر سے پڑھئے۔ اس وقت امام اور مقتدیوں میں خوب چک چک ہوئی۔ [التہذیب] تراویح میں کتنا قرآن سنانا چاہئے حفاظ وائمہ کو ضروری تنبیہ اے حفاظ اور اے امامو! اپنے مقتدیوں کو دیکھ لو کیسے ہیں؟ اگر واقعی ان کو قرآن سننے کا شوق ہو تو سبحان اللہ قرآن زیادہ پڑھو‘ قرآن جس قدر بھی زیادہ ہو‘ باعث نورانیت ہے اور اگر دیکھو کہ شوق نہیں جیسے آج کل ہے تو بس سوا پارہ اچھی مقدار ہے۔ اور بہتر یہ ہے کہ پندرہ پارہ تک سوا پارہ پڑھو اور پھر ایک ایک پارہ کر دو۔ ۲۷ کو ختم ہو جائے گا۔ فقہاء نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کسی جگہ رمضان میں نمازی ایک قرآن بھی سننے سے اکتاتے ہوں تو وہاں تراویح اَلَمْ تَرَکَیْفَ سے پڑھ لے (پورا قرآن نہ سنائیں لیکن) بعض حافظ ایسا ستم ڈھاتے ہیں کہ (مقتدیوں کی منشاء کے خلاف) پانچ پانچ پارے پڑھ جاتے ہیں‘ ان حفاظ کو مسائل جاننے کی سخت ضرورت ہے۔ [التہذیب] امام کو چاہئے کہ مقتدیوں کی رعایت کرے حدیث شریف میں ایک قصہ آیا ہے کہ حضرت معاذ بن حبل رضی اللہ عنہ ایک مسجد میں امام تھے پہلے تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے نفل کی نیت سے شریک ہوتے‘ پھر وہاں جا کر نماز پڑھایا کرتے تھے‘ ایک مرتبہ عشاء کی نماز پڑھانے کے لئے گئے تو سورئہ بقرہ شروع کر دی محلہ میں ایک آدمی بے چارہ غریب‘ دن بھر کی محنت مزدوری مشقت سے تھکے ہوئے تھے‘ وہ جماعت سے علیحدہ ہو کر اپنی نماز پڑھ کر چلے گئے اور اس وقت جماعت میں شریک نہ ہونا نفاق کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ حضرت معاذ بن جبلؓ نے ان کو برا بھلا کہا‘ صبح کو یہ مقدمہ آپ کے حضور میں پیش ہوا۔ ان صحابی نے حضرت معاذ کی شکایت کی‘ کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم