تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کسی سے حضور قلب نہ ہو تو یہ اس کی کوتاہی ہے۔ [روح القیام] تراویح کا مسنون طریقہ اورحضرت تھانویؒ کا معمول بندہ محمد یوسف بجنوری عرض کرتا ہے کہ مجھ کو ایک عرصہ سے تمنا تھی کہ تراویح کا جو طریقہ سلف میں تھا اس کا ذکر کتب فقہ میں تو ہے اس کو عمل میں کہیں دیکھوں‘ مگر کہیں اتفاق نہیں ہوتا تھا جہاں کہیں بھی دیکھا حد سے متجاوز پایا۔ اس سال بندہ کا قیام تھا نہ بھون میں رہا اور رمضان شریف میں شروع سے اخیر تک یہ شریک رہا۔ حضرت والا نے قرآن شریف سنایا۔ چونکہ حضرت والا ہر امر میں اتباع سنت کو بدرجہ اعلیٰ محفوظ رکھتے ہیں‘ اس کو بھی مسنون طریقہ کے مطابق ادا فرمایا‘ ایک بات بھی ایسی نہ ہوئی جو شرع کے خلاف ہو۔ اس لئے بندہ کو مناسب معلوم ہوا کہ جس طریقہ سے حضرت نے تراویح ادا فرمائیں اس کو قلم بند کر دوں کیا اچھا ہو کہ جن حضرات کی نظر سے یہ مضمون گزرے وہ بھی اسی طرح عمل فرمائیں‘ واللہ اتباع سنت ہی میں دین کی راحت ہے اور دنیا کی بھی بڑی راحت ہے‘ تجربہ سے اس دعویٰ کی تصدیق ہوجائے گی اب میں اس کے متعلق عرض کرتا ہوں۔ رمضان شریف میں حضرت کے یہاںعشاء کی اذان کاوقت آٹھ بجے یعنی غروب سے ایک گھنٹہ چالیس منٹ بعد تھا اور پونے نو بجے جماعت کھڑی ہوتی تھی۔ ! حضرت والا فرض خود ہی پڑھاتے تھے۔ رمضان شریف میں سورئہ فاتحہ کے بعد چھوٹی سورتیں پڑھتے تھے جیسے والتین اور الم ترکیف وغیرہ اور اکثر تو یہی عادت تھی اورکبھی و الشمس وغیرہ پڑھتے۔ غرض فرضوں میں قرأت طویل نہ ہوتی تھی اس میں مقتدیوں کی رعایت مد نظر تھی۔ " تراویح میں قرأت نہ تو اس قدر جلدی ہوتی تھی جیسے اس زمانہ میں حفاظ کا طرز ہے کہ الفاظ بھی ٹھیک ٹھیک ادا نہیں ہوتے اور نہ اس قدر آہستہ ہوتی تھی جیسے فرضوں میں قرأت ہوتی ہے بلکہ فرضوں کی بہ نسبت ذرا کچھ رواں قرأت فرماتے اور ہر حرف اچھی طرح سمجھ میں آتا تھا‘ اظہار و اخفاء کی بھی رعایت تھی۔ # تراویح میں شروع شروع میں سوا پارہ پڑھا پھر کم کر دیا تھا ۲۷ ویں شب کو ختم ہوا۔ $ کل وقت فرض اور سنت اور تراویح اور وتر میں ڈیڑھ گھنٹہ یا کبھی اس سے بھی کم خرچ ہوتا تھا۔ % ہرچار رکعت کے بعد بیٹھتے تھے جس کو ترویحہ کہتے ہیں اس میں ۲۵ بار درود شریف پڑھتے جس میں خفیف ساجہر ہوتا تھا (یعنی ہلکی آواز سے پڑھتے تھے) & جب بیس رکعت تراویح ہو جاتیں تو ترویحہ کرکے دعاء مانگتے اس کے بعد وتر پڑھتے۔ ' جس موقع پر کلام اللہ میں سجدہ کی آیت ہے وہاں کبھی سجدہ فرماتے ہیں اور کبھی (جب مجمع زیادہ ہوتا ہے تو) رکوع ہی سے سجدہ ادا فرماتے ہیں(کیوں کہ مسئلہ ہے کہ سجدہ کی آیت پڑھ کر جلدی اگر رکوع میں چلا جائے اور رکوع میں سجدہ کی نیت کر لے تو سجدہ تلاوت ادا ہو جاتا ہے)۔ ( عام معمول یہ ہے کہ سورہ اخلاص سے پہلے ہی کسی سورۃ میں بسم اللہ جہر سے