تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہ کچھ کھا کر عید گاہ کو جانا چاہیے اس لئے سہل الحصول چیز کو اختیار کر لیا بعد ازاں دوست احباب کے یہاں بھیجنے کا رواج ہو گیا اس کی نظیر میں تہادی الی العروس کو پیش کیا جاتا ہے یہ صحابہ کرامؓ سے ثابت ہوا ہے کہ جیسے دولہا کے پاس خوشی کا دن دیکھ کر ہدیہ بھیجنا مستحسن ہے اسی طرح عید کا دن بھی خوشی کا ہے احباب کے پاس کیوں نہ تحفے بھیجے جائیں۔ میں کہتا ہوں کہ مقیس علیہ ہی کو دیکھ لیجئے کہ ہر چند کہ تہادی الی العروس فی نفسہٖ موجب زیادتی محبت ہے لیکن واللہ بطریق رسم بھیجنا بغض کو بڑھاتا ہے تجربہ اس پر دال ہے ہاں خلوص کے ساتھ بھیجنے سے محبت بڑھتی ہے جیسا کہ دو دوست آپس میں ہدیہ کبھی کبھی بھیج دیا کریں اور رسم سے تو محبت بڑھتی نہیں‘ محبت اور خلوص کا جو اعلیٰ فرد ہے اس کو دیکھئے کہ رسم کو دخل دینے سے کیا حقیقت اس کی رہ جاتی ہے اور فرد وہ محبت ہے جو پیرو مرید میں ہوتی ہے کہ ایسی کہیں دو شخصوں میں نہیں پائی جاتی کہ جان سے زیادہ عزیز مرید کے نزدیک شیخ ہوتاہے اور مال تو کیا چیز ہے اور کبھی کبھی شیخ کی خدمت میں نذر گزاراکرتے ہیں اور اس سے خلوص بڑھ جاتا ہے مگر جب اسی نذر کو رسم قرار دے دیا تو دیکھ لیجئے کہ زمانہ کی پیری مریدی کاکیاحال ہے خلوص تو کیسا جس جگہ پیر صاحب پہنچ گئے مرید اپنے آپ کو چھپانے لگے کہ ایسا نہ ہو کہ چندہ کی فہرست آ پہنچے دعائیں مانگنی پڑتی ہیں کہ کسی طرح پیر صاحب جلدی ٹلیں اب فرمایئے کہ فی نفسہٖ تو شیخ کو ہدیہ دینا موجب محبت تھا یہاں موجب بغض کیوں ہو گیا؟ صرف رسم سے۔ میرے ایک دوست کاقصہ ہے کہ ایک مدت تک انہوں نے حضرت حاجی صاحب کے پاس خط نہیں بھیجا میں نے ان سے وجہ پوچھی تو کہا میں اس عرصہ میں خالی ہاتھ تھا فکر میں ہوں کچھ روپیہ کہیں سے مل جائے تو عریضہ لکھوں میں نے کہا اس خیال میں مت پڑو اب تو ضرور بلا ہدیہ خط بھیجو اب دیکھ لیجئے کہ ایک عرصہ تک اس خیال نے اس کو استفادہ سے روک دیا فی نفسہٖ حسن ہو مگر قید رسم سے قبح آ گیا۔ ایسے ہی عید کے دن کے ہدایاہیں اور اگر غور کیجئے گا تو ان ہدایا کو قرض پایئے گا کیونکہ دیتے وقت یہ ضرورنیت ہوتی ہے کہ اس کے یہاں سے بھی آئے گا اور اگر ایک مرتبہ نہ آئے تو ادھر سے بھی بند ہو جاتا ہے اور ہدیہ کی تعریف میں بلاعوض کی شرط ماخوذ ہے پس یہ ہدیہ بھی نہ رہا پھر قرض دار ہونے یا قرض دار کرنے سے کیا فائدہ؟ عید الفطر کی نماز کے احکام عید الفطر کی نماز کا وقت بقدر ایک نیزہ آفتاب بلند ہونے کے بعد (جس کااندازہ پندرہ بیس منٹ ہے) اشراق کی نماز کے وقت کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے اور زوال یعنی سورج کے ڈھلنے تک رہتا ہے۔ [در مختار] نماز عید سے پہلے اس روز کوئی نفلی نماز پڑھنا عید گا ہ میں بھی اور دوسری جگہ بھی مکروہ ہے اورنماز عید کے بعد صرف عید گاہ میں نفل پڑھنا مکروہ ہے نماز عید کے بعد دوسری جگہ نفل پڑھے جا سکتے ہیں یہ حکم عورتوں اور ان لوگوں کے لئے بھی ہے جو کسی وجہ سے نماز عید نہ پڑھ سکیں۔[شامی] شہر کی مسجد میں اگر گنجائش ہو تب بھی عید گاہ میں نماز عید ادا کرنا افضل ہے اور