تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آ پڑے اب تیرے در پر یا الٰہ گرچہ یا رب ہم سراپا ہیں برے اب تو لیکن آ پڑے در پر ترے دل میں ہیں لاکھوں امیدیں جلوہ گر ہاتھ اٹھاتے شرم آتی ہے مگر تو غنی ہے اور ہم ہیں بے نوا کون پوچھے گا ہمیں تیرے سوا ہے تو ہی حاجت روائے دو جہاں ہم ترا در چھوڑ کر جائیں کہاں صدقہ اپنی عزت و اجلال کا صدقہ پیغمبر کا‘ ان کی آل کا اپنی رحمت ہم پر اب مبذول کر یہ مناجات اور دعا مقبول کر حضرت مولانا ابرار احمد صاحبؒ اپنے ایک وعظ میں فرماتے ہیں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ لینے اور مانگنے کا مہینہ ہے مگر شرط یہ ہے کہ ہم جزم‘ یقین او راعتماد کے ساتھ اللہ جل شانہ کے سامنے اپنی مانگ پیش کریں تو ناممکن ہے کہ رمضان المبارک کے اس مہینہ میں حق تعالیٰ ہماری مانگ کے پورا ہونے کا فیصلہ نہ فرمائیں ہاں! کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بندہ کی مصلحت اس میں ہوتی ہے کہ اس کا ظہور دیر سے ہو اس وجہ سے تاخیر ہو جائے یہ اور بات ہے ورنہ عرضی لے لی جاتی ہے اس لئے حضرت تھانویؒ فرماتے تھے کہ دنیا میں ایسا ہوتا ہے کہ جب آدمی افسران حکمران اور سلاطین کے سامنے اپنی درخواست پیش کرتا ہے تو بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کی درخواست کو رد کر دیا جاتا ہے اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ حاکم اعلیٰ اپنے تخت اور ٹیبل پر اس کی درخواست لے لیتے ہیں پھر اگر مصلحت ہوئی تو وہ چیز اسے دے دی جاتی ہے یا اس کے بدلہ کوئی اور چیز دے دی جاتی ہے یا بلا ٹال دی جاتی ہے رب العالمین کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے‘ اس لئے رمضان المبارک میں خاص طور پر ہمیں اللہ جل شانہ سے یہ امید رکھنی چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے جو مانگیں گے حق تعالیٰ عطا فرمائیں گے اس لئے سب سے پہلے اپنے ایمان کی حفاظت‘ ہدایت اور استقامت‘ حق تعالیٰ کی رضا‘ جہنم سے بچنا اور جنت میں داخلہ ان بنیادی چیزوں کو ہم خدا سے مانگیں اس کے بعد حلال روزی‘ صحت‘ آبرو‘ عافیت اور سکون و طمانیت اور اس دینی زندگی کا سوال کریں جس پر خدا کی طرف سے رحمتوں اور عنایتوں کی بارش ہوتی ہے ہمیں آج کی اس مجلس میں طے کرنا ہے کہ ہم جل شانہ سے تعلق قائم کریں گے بزرگوں نے لکھا ہے کہ اگر