تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ختم قرآن کے روز حضرت تھانوی کا معمول ایک مرتبہ احقر کو ۲۸ رمضان کو تھانہ بھون حاضر ہونے کا موقع ملا۔ غالب خیال یہ تھا کہ قرآن ختم ہو گیا ہو گا کیوں کہ اکثر جگہ ستائیسویں کو ختم ہو جاتا ہے نیز مسجد کی کسی ہیئت یا جماعت میں معمول کے خلاف کوئی تبدیلی نہ تھی اور اس کے خلاف کا خیال بھی نہ ہوا۔ اور اتفاق کی بات کہ حضرت نے تراویح بھی سورہ والضحیٰ سے شروع کی اس سے اور یقین ہو گیا کہ ختم قرآن ہو گیاہے کیوں کہ قرآن ختم ہو جانے کے بعد اکثر والضحیٰ سے پڑھتے ہیں۔ لیکن جب حضرت نے سورہ اقراء پر بسم اللہ پڑھی تو خیال ہوا کہ آج ہی ختم کا دن ہے۔ چنانچہ یہ خیال صحیح نکلا۔ ختم کے بعد دعاء مانگی گئی۔ مگر اس میں معمول سے کوئی خاص زیادتی نہ تھی سردی کا موسم تھا‘ نماز مسجد کے اندر کے حصہ میں ہوتی تھی‘ سوائے اس ایک چراغ کے جو روز جلتا تھا‘ دوسرا چراغ بھی نہ تھا‘ نہ جماعت میں آدمی زیادہ تھے نہ مٹھائی بٹی‘ اور نہ کوئی خاص بات ایسی ہوئی جس سے ظاہر ہو کہ آج ختم ہے۔ ایک صاحب نے عرض کیا کہ مجھے اجازت دے دیجئے کہ تھوڑی مٹھائی بانٹ دوں؟ فرمایا آج نہیں اگر آپ کا بہت جی چاہے تو کل کو بانٹ دینا۔ نہ اجوائن وغیرہ پر دم کیا گیا حضرت نے اس کو بالکل حذف کر دیا ہے اب لوگ نہیں لاتے ہیں نہ حضرت نے قل ہو اللہ تین بار پڑھی البتہ دوسری رکعت میں مُفْلِحُوْن تک پڑھا۔ [معمولات اشرفی] شبینہ کافی نفسہٖ حکم اگر شبینہ میں ختم کرنا مقصود ہو تو یہ بھی امر مستحسن ہے جتنی ہمت ہو قرآن شریف پڑھو‘ (سنو) (شبینہ فی نفسہٖ جائز ہے اس لئے) میں شبینہ کو نہیں روکتا‘ چنانچہ پانی پت میں اس کا اب تک رواج ہے وہاں کے لوگوں کو میں منع نہیں کرتا کیوں کہ ان کو واقعی شوق ہے‘ بشرطیکہ ہو تراویح میں‘ کیوں کہ نفلوں کی جماعت مکروہ ہے۔ دوسرے اس میں اعلان کی ضرورت نہیں تاکہ ریا سمعہ یعنی (دکھلاوے اور شہرت) سے خالی رہے۔ [علم الصنوف] مروجہ شبینہ (لیکن )مروجہ شبینہ میں تو کچھ پوچھئے ہی نہیں کیا حال ہوتا ہے۔ شبینہ پڑھنے والے پانچ چھ گھنٹہ میں قرآن ختم کر لیتے ہیں اور وہ پانچ چھ گھنٹے مقتدیوں کو پانچ مہینے کے برابر ہو جاتے ہیں پہلے یہاں بھی شبینہ کا رواج تھا‘ بڑی گڑ بڑ ہوتی تھی اس گڑ بڑ کو دیکھ کر میں نے شبینہ کی مخالفت کی کیوں کہ لوگوں کو یہاں شوق تو تھا نہیں محض نام و نمود (دکھلاوا) مقصود تھا کہ ہم نے ایک رات میں قرآن سنا۔ حالت یہ ہوتی تھی کہ مقتدی پڑے ہوئے ہیں اور امام کھڑا پڑھ رہا ہے پھر وہ بھی ایسا تیز پڑھ رہا ہے کہ قرآن بھی بہت کم سمجھ میں آتا تھا‘ اور سمجھانے کی اس کو ضرورت ہی کیا تھی جب سننے اور سمجھنے والے ہی نہ ہوں کیوں کہ مقتدی تو اکثر لیٹے ہوتے تھے۔ ایک جگہ کا واقعہ ہے کہ ایک حافظ صاحب شبینہ میں پلنگ پر لیٹے ہوئے امام کو لقمہ دے رہے تھے جس سے ساری رات کی محنت ہی ضائع ہو گئی کیوں کہ یہ لقمہ نماز کو