تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
طرف سے آخری صحیفہ کا آخری رسول پر نازل ہونا ہے کہ جس کے بعد نہ کوئی صحیفہ آئے گا اور نہ کوئی رسول۔ غور تو فرمایئے کہ اول تو الہام زبانی ہی اپنے اندر کس قدر عظمت رکھتا ہے کہ وہ کلام الٰہی ہے اور پھر کلام الٰہی بھی ایسا مکمل اور جامع کہ اس کے بعد کسی اور صحیفہ کی گنجائش اور ضرورت ہی نہیں رہی۔ اسی واسطے قرآن مجید کا رمضان شریف میں نازل ہونا رمضان کے لیے باعث شرف و عظمت ہے۔ اور قرآن کریم کو رمضان المبارک سے خاص تعلق اور گہری خصوصیت حاصل ہے۔ چنانچہ رمضان المبارک میں اس کا نازل ہونا‘ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا رمضان شریف میں تلاوت قرآن کا شغل نسبتاً زیادہ رکھنا اورجبرائیل علیہ السلام کا رمضان شریف میں دور کرانا‘ تراویح میں ختم قرآن کا مسنون ہونا اور صحابہ کرام علیہم الرضوان اور بزرگان امت محمدیہ علی صاحبھا الف الف صلوۃ و تحیہ کا رمضان میں تلاوت کا خاص اہتمام کرنا یہ سب امور اس خصوصیت کو بتلاتے ہیں۔ لہٰذا اس مہینہ میں تلاوت قرآن کے معمول کو بہ نسبت دوسرے معمولات ذکر و شغل کے بڑھانا اور زیادہ کرناچاہئے اور اہتمام کے ساتھ کثرت سے تلاوت قرآن میں مشغول رہنا چاہئے۔ حکیم الامت تھانوی قدس سرہ کی عادت شریفہ تھی کہ وہ رمضان المبارک میں سالکین کی تعلیم و تلقین خاص کو بند فرما دیتے تھے البتہ افادہ عامہ پہلے سے زیادہ ہو جاتا تھا اور احباب کو مشورہ دیا کرتے تھے کہ قرآن مجید کی تلاوت کو اس ماہ مبارک میں دوسرے معمولات پر غالب رکھیں۔ رمضان اور قرآن کا تعلق رمضان المبارک کے ساتھ جس طرح روزہ اور قرآن کریم دونوں کو خصوصی تعلق ہے اسی طرح آپس میں بھی ان دونوں عبادتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بہت گہرا تعلق اور مناسبت ہے۔ یہ دونوں عبادتیں یعنی روزہ اور قرآن کریم کئی خاصیتوں میں مشترک ہیں۔ رمضان اور قرآن کی مشترک خاصیتیں پہلی مشترکہ خاصیت۔ شفاعت حدیث شریف میں ہے کہ روزہ اور قرآن کریم دونوں قیامت کے دن شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا اے رب میں نے اس کو دن میں کھانے پینے سے باز رکھا تھا۔ میری شفاعت اس کے حق میں قبول کیجیے اور قرآن کہے گا میں نے اس کو رات کو جگایا تھا اس لیے میری شفاعت قبول فرمایئے۔ پس دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ دوسری مشترکہ خاصیت۔ قرب خاص ایک اور خاصیت ان دونوں میں مشترک پائی جاتی ہے یعنی تلاوت قرآن اور روزہ میں‘ اور وہ خاصیت قرب خاص حق تعالیٰ کا ہے۔ تلاوت میں بھی خاص قرب ہوتا ہے ایسے ہی روزہ دار کو بھی خاص قرب ہوتاہے حق تعالیٰ کا۔ یہ دوسری بات ہے کہ تلاوت میں وجہ قرب اور ہو اور روزہ میں وجہ قرب اور۔ مگر نفس قرب خاص میں دونوں شریک ہیں۔ تلاوت سے تو اس لیے قرب خاص ہوتا ہے کہ کلام کو خاص مناسبت ہوتی ہے متکلم سے اور ظاہر ہے کہ جو شخص اس کی تلاوت کرے گا اس کو خاص تعلق ہو گا صاحب کلام سے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے کوئی دیوان وغیرہ تصنیف کیا ہو اور ایک