تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جائز ہے مگر زیادہ بکھیڑا لانا مناسب نہیں۔ کیونکہ اس سے تو وہ بھی گھر بن جائے گا پھر جس طرح گھر میں عبادت و بیداری دشوار تھی وہی بات مسجد میں ہو گئی سب کا حاصل یہ ہوا کہ مسجد میں تو گھر کے فتنہ سے خود کو چھڑا کے لائے تھے وہاں تم نے اتنا بکھیڑا اکٹھا کیا کہ وہ بھی گھر کی طرح ہو گئی۔ مسجد کو صاف رکھو مسجد کو اس طرح صاف رکھو جیسا ہماری پھوپھی اس کا وصف بیان کرتی تھیں خدا ان کی مغفرت کرے ان کی عادت تھی کہ گھر کا تمام بکھیڑا پھیلاتی بہت تھیں۔ دیگچی کہیں ہے رکابی کہیں ہے چمچہ کہیں ہے اگر کسی نے اعتراض کیا تو کہتی تھیں یہ گھر ہے مسجد کی طرح صاف صاف نہ ہونا چاہئے تو تم مسجد کو بالکل صاف صاف رکھو‘ سو مسجد میں معتکف کو اتنا بکھیڑا نہ لے جانا چاہئے۔ بعضے آدمی ہوتے بھی ہیں بکھیڑیئے‘ گو گناہ تو نہیں مگر خلاف ادب ہے مسجد میں آئے ہو گھر چھوڑ کے۔ اگر تم نے اسے بھی گھر بنا لیا تو مسجد میں آنے کا کیا فائدہ ہوا۔ بعضے بکھیڑیئے کیا کرتے ہیں کہ مسجد میں اعتکاف کیلئے آتے ہیں تو تنہا نہیں آتے۔ ایک پاندان بھی ساتھ ہے اگالدان بھی ہے ایک چائے کا سمادار بھی ہے۔ تمباکو کا تھیلا بھی ہے جو نہیں کھاتے وہ بیچارے بدبو سے پریشان ہوتے ہیں۔ غرض اپنے پیچھے بہت سی علتیں لگا لیتے ہیں اور سب کو گھر کی طرح مسجد میں بھی جمع کرتے ہیں۔ اور اگر کوئی دلیر ہیں تو وہ حقہ بھی لاتے ہیں خود تو مسجد کے اندر بیٹھے ہیں حقہ باہر رکھا ہے اور گڑ گڑ کر رہے ہیں۔ حقہ کا قرنطینہ ہے کہ وہ باہر رہے بعضے سگریٹ پیتے ہیں اور دھواں باہر چھوڑتے جاتے ہیں بہرحال اس طرح آتے ہیں کہ خود ہی معتکف نہیں ہوتے بلکہ ایک آپ کا سمادار پاندان بھی آپ کے پاس معتکف ہوتا ہے حضرت اگر اس کنبہ کو بھی اعتکاف کرانا ہے تو پھر گھر پر ہی اعتکاف کر لیا کیجئے۔ غرض مسجد میں بالکل آزاد ہو کے آنا چاہئے ایک بستر ایک چادر بلکہ آج کل تو گرمی ہے صرف ایک چادر کافی ہے۔ ایک چھوٹا سا تکیہ‘ کھانا پینا بلی سے بچانے کے لئے ایک چھوٹا سا بکس یا ایک چھینکا غرض نہایت مختصر سامان کے ساتھ مسجد میں آنا چاہئے بلکہ اپنے گھر میں بھی نہایت مختصر سامان سے رہنا چاہئے تو مسجد تو پھر خانہ خدا ہے اس میں زیادہ بکھیڑا لانا مناسب نہیں۔ شب قدر کی تلاش بہرحال مسجد میں معتکف کو اس لئے لایا گیا کہ شب قدر کی تحری (تلاش) سہل ہو کیونکہ بہت سے آدمی ہوں گے جب سب ایک ہی کام میں مشغول ہوں گے تو دل بھی لگے گا۔ اور اس میں بھی عجیب حکمت ہے کہ شب قدر کی تاریخ معین نہیں کی کیونکہ مقصود پانچ راتوں میں جگانا تھا۔ پھر سبحان اللہ اس میں یہ کیسا اعتدال ہے کہ متواتر پانچ راتوں میں نہیں جگایا ایک رات جگایا اور ایک رات سلایا‘ اور پھر اس سونے میں بھی ثواب جاگنے کا دیا اور یہ بات میں اپنی طرف سے گھڑ کے نہیں کہتا حدیث سے ثابت ہے حدیث میں ہے کہ اگر کوئی شخص گھوڑا پالے اللہ کے راستے میں تو اس کی لید اس کا پیشاب سب وزن ہو کر اس کو نیکیاں ملیں گی کوئی یہ شبہ نہ کرے کہ میزان میں لید رکھ دی جائے گی میزان میں لید کے وزن کی کوئی چیز رکھ دی جائے گی تو جب اس کے