تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
! دوسرے عورتوں کے مزاج میں چونکہ بے احتیاطی ہوتی ہے اس لئے سلام پھیر کر پکار پکار کر باتیں کیا کرتی ہیں اور امام صاحب سنا کرتے ہیں۔ بلا ضرورت عورتوں کا اپنی آواز اجنبی مردوں کے کان میں ڈالنا شرعاً ناپسندیدہ ہے۔ " تیسرے بعض مجمع میں تمام عورتیں اس مرد کے اعتبار سے نامحرم ہوتی ہیں‘ ان میں کوئی بھی اس کی بیوی یا ماں یا بہن نہیں ہوتی۔ ایک گھر میں مرد کا اتنی نامحرم عورتوں کے ساتھ جمع کرنا بے شک حکم شرعی کے خلاف ہے۔ اور یہ موٹی سی بات ہے کہ جب شرعاً عورتوں کا مسجد میں جانا منع ہے جس سے معلوم ہوا کہ شریعت کا مقصود یہ ہے کہ مردوں اور عورتوں میں دوری رہے پس جب عورتوں کو مردوں کے مجمع میں جانے کی ممانعت ہے‘ اسی طرح مردوں کو عورتوں کے مجمع میں جانے سے اور عورتوں کو مرد کو بلانے سے کیوں نہ ممانعت ہو گی۔ عورتوں کے لئے یہی مناسب ہے کہ اپنے گھروں میں الگ الگ تراویح پڑھیں‘ ہاں کسی کا بھائی بیٹا حافظ ہو اور چار عورتیں گھر کی جمع ہو کر اس کے پیچھے قرآن سن لیں تو اس میں مضائقہ نہیں۔ بشرطیکہ یہ شخص فرض جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھے اور اگر دو چار میں کوئی پردہ دار ہو (یعنی ایسی عورت ہو جس سے پردہ ضروری ہو) تو درمیان میں کوئی دیوار یا پردہ وغیرہ حائل ہو۔ اور عورتوں کے جمع ہونے کا اہتمام نہ کیا جائے۔ [اصلاح الرسوم] عورتوں کو اپنے گھروں میں کسی مرد سے تراویح میں قرآن سننے کا حکم بعض عورتیں رمضان شریف میں حافظ کو گھر کے اندر بلا کر تراویح میں قرآن مجید سنا کرتی ہیں اگر یہ حافظ اپنا کوئی محرم مرد ہو (یعنی جس سے شرعاً پردہ نہ ہو۔ جیسے بھائی بیٹا) اگر گھر ہی کی عورتیں سن لیا کریں اور یہ حافظ فرض نماز مسجد میں پڑھ کر صرف تراویح کے واسطے گھر میں آ جایا کرے تو کوئی حرج نہیں لیکن آج کل اس میں بھی بہت سی بے احتیاطیاں کر رکھی ہیں : اول بعض جگہ تو نامحرم حافظ گھر میں بلایا جاتا ہے اور اگرچہ نام کا پردہ ہوتا ہے لیکن عورتیں چونکہ بے احتیاط زیادہ ہوتی ہیں اس واسطے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یا تو حافظ جی سے باتیں شروع کر دیتی ہیں یا آپس میں خود سب پکار پکار کر بولتی ہیں اور حافظ جی سنتے ہیں۔ بھلا بغیر کسی مجبوری کے اپنی آواز نامحرم کو سنانا کب درست ہے۔ ! دوسرے جو شخص قرآن مجید سناتا ہے جہاں تک ہو سکتا ہے خوب آواز بنا کر پڑھتا ہے بعض لوگوں کی آواز اور لے ایسی اچھی ہوتی ہے کہ ضرور سننے والے کا دل اس کی طرف مائل ہو جاتا ہے (عشق تک کی نوبت آ جاتی ہے) اس صورت میں نامحرم مردوں کی لے عورتوں کے کان میں پہنچنا کتنی بڑی (اور خطرہ کی) بات ہے۔ [بہشتی زیور] حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ سفر میں ایک غلام کو عورتوں کے سامنے اشعار پڑھنے سے روک دیا تھا اور فرمایا تھا: ((رُوَیْدَکَ یَا اَنْجَشَہ لَاتُکْسِرِ الْقَوَارِیْرَ)) تو جب اس زمانے میں جب کہ سب پر تقویٰ غالب تھا حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی اجازت نہیں دی تو آج کل (جبکہ خطرہ بھی ہو تو) کس کو اجازت ہو سکتی ہے۔