تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہر ادا سے رئوساء کا سا تکبر نمایاں ہو‘ اور حقیقت کا پتہ نہیں۔ صحابہ کے طرز کو دیکھئے مدینہ کی سادی مسجد میں پھٹی ہوئی بوریوں پر بیٹھے ہیں اور حوصلہ اس قدر بلند ہے کہ سلطنت روم و فارس (جو دنیا کی عظیم الشان سلطنتیں تھیں ان) کا فیصلہ کر رہے ہیں اور سب خوف زدہ ہیں کہ دیکھئے یہ بوریہ نشین ہماری قسمت کا کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ سارا جہاں لرزاں ہے کہ یہ پھٹے کپڑے پہننے والے کیا کریں گے۔ حضرات! یہ نمونہ تھا کام کرنے والوں کا۔ یہ فیشن‘ یہ وضع اور یہ شان و شوکت ان حضرات میں کہاں تھی۔ اگرواقعی کام کرنا ہے تو کسی چیز میں شان و شوکت کا خیال مت کرو۔ [اصلاح الیتامیٰ] ختم کے روز مسجد کی سجاوٹ اور ضرورت سے زائد روشنی کرنے میں شرعی قباحتیں رمضان میں مسجد میں روزانہ اور خصوصاً ختم کے روز کثرت سے روشنی کرنے اور سجاوٹ کا اہتمام کیا جاتا ہے اس میں بہت سے مکروہات ہیں۔ اسراف (یعنی فضول خرچی) کہ اس قدر تیل اور بتی مفت ضائع ہو جاتا ہے اگر یہی رقم مسجد کے کسی کام میں مثلاً رسی ڈول فرش لوٹے (بجلی کے کرایہ) وغیرہ میں صرف کی جائے تو کس قدر مدد پہنچے۔ اور اسراف (فضول خرچی) کا حرام ہونا قرآن پاک میں آیا ہے۔ ! اکثر روشنی کرنے والوں کی نیت وہی ناموری (شہرت دکھاوے کی) ہوتی ہے کہ فلاں شخص نے ایسا اہتمام کیا۔ " مسجد تماشا گاہ بنتی ہے‘ عبادت گاہ کو تماشا گاہ بنانا کس قدر تعجب کی بات ہے۔ # نمازیوں کی توجہ اسی کی طرف ہو کر رہ جاتی ہے‘ نماز میں خیال بٹتا ہے‘ نماز میں خشوع و خضوع فرض ہے جو چیز خشوع میں خلل انداز ہو گی بے شک مذموم ہو گی۔ خصوصاً مہتمم (یعنی انتظام کرنے والے) کی طبیعت تو بالکل اسی میں مشغول رہتی ہے کہ فلاں چراغ (بلب یا راڈ) بجھتا ہے یا بھڑکتا ہے‘ فلاں کو کم کرنا چاہئے‘ نماز خاک نہیں۔ [اصلاح الرسوم] مسجد کی سجاوٹ اور چراغوں کی کثرت سے اسلام کی عزت نہیں رمضان شریف میں ایک بدعت ختم کے روز چراغوں کی کثرت (اور مسجد کی سجاوٹ کی) ہے اور لوگ یوں کہتے ہیں کہ اس میں اسلام کی شوکت ہے ہم کہتے ہیں کہ رمضان ہی میں شوکت اسلام کی ضرورت ہے یا باقی تمام مہینوں میں بھی؟ تو ہمیشہ بہت سے چراغ جلایا کیجئے یا یوں کہئے کہ اور دنوں میں اسلام کے چھپانے کا حکم ہے۔ خوب جان لیجئے اسلام کی شوکت اعمال صالحہ ہی میں ہے۔ آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کاقصہ سنا ہو گا کہ جس وقت ملک شام گئے ہیں اور نصاریٰ کے شہر کے پاس پہنچے تو کپڑوں میں پیوند لگے ہوئے تھے‘ اونٹ کی سواری تھی اس پر بھی خود سوار نہیں تھے غلام سوار تھا لوگوں نے عرض کیا کہ یہاں اظہار شوکت کا موقع ہے کم سے کم گھوڑے پر سوار ہو جایئے آپ نے بہت اصرار کے بعد منظور کر لیا جب سوار ہوئے تو گھوڑے نے کودنا اچھلنا شروع کیا آپ فوراً اترے کہ اس سے نفس میں عجب پیدا ہوتا ہے۔ اللہ اکبر!