تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی وجہ قطبین پر چھ چھ مہینے کے دن رات ہوتے ہیں اور اس کی وجہ بیان ذیل سے اسی سوال میں واضح ہو گی۔ سوال :جب آفتاب خط استوا پر ہوتا ہے تو اس کی روشنی دونوں قطبوں پر پہنچتی ہے لیکن جس قدر سورج خط استوا سے شمال کی طرف آتا ہے اسی قدر اس کی روشنی قطب شمالی کے آگے بڑھتی اور قطب جنوبی سے ورے ہٹتی آتی ہے اور اسی واسطے قطب شمالی پر دن اور قطب جنوبی پر رات ہوتی جاتی ہے مگر سورج خط استواء سے تین مہینوں میں شمال کی طرف آ کر خط سرطان پرپہنچتا ہے اور پھر تین ہی مہینوں میں خط سرطان سے خط استواء پر آتا ہے پس ان چھ مہینوں میں قطب شمالی آفتاب کی روشنی سے منور اور قطب جنوبی اس سے غائب ہوتا ہے اور ایسا ہی باقی چھ مہینے جب آفتاب نصف کرہ جنوبی میں ہوتا ہے تو قطب جنوبی توآفتاب کی روشنی سے منور اور قطب شمالی تاریکی میں ہوتا ہے اور اسی واسطے ان دنوں قطب جنوبی پر دن اور قطب شمالی پر رات ہوتی ہے یعنی ۲۱ مارچ سے ۲۲ ستمبر تک آفتاب کے نصف کرہ شمالی میں رہنے کے سبب قطب شمالی پردن اور قطب جنوبی پر رات ہوتی ہے پس جہاں رات چھ ماہ کی اور دن بھی چھ ماہ کا ہو وہاں روزہ رکھنے کا کیاانتظام ہو گا کسی انسان کی اتنی طاقت و وسعت نہیں کہ اتنے بڑے دن یعنی چھ ماہ کا روزہ رکھ سکے اور چھ ماہ تک غروب آفتاب کا انتظار کرے اور بھوکا پیاسا رہے۔ مثلاً گرین لینڈ میں جو جائے وہاں اس کے روزہ کا کیسے انتظام ہو؟ جواب: قطبین اور گرین لینڈ وغیرہ پر روزہ رکھنے کے مسئلہ کو قرآن کریم نے بھلا نہیں دیا بلکہ واضح کر کے بتلا دیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں: {فَمَنْ شَھْدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ} ’’یعنی جو شخص ماہ رمضان کو پاوے وہ اس میں روزے رکھے۔‘‘ پس جہاں رمضان کی نوبت نہیں آتی اور جہاں رمضان موجود ہی نہیں روزہ بھی نہیں۔ ایسے مقامات پر یہی حال نماز کا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتے ہیں ان الصلاۃ کانت علی المومنین کتابا موقوتا تو جہاں یہ اوقات نہیں وہاں عبادت موقوتہ بھی نہیں جس طرح چور کا ہاتھ کاٹنا قرآنی حکم اور اسلام کا عمل درآمد تھا اور ہاتھ کٹے چور مسلمان بھی ہو جاتے اور ہوتے تھے اور نمازیں بھی پڑھتے تھے اور قرآن کریم میں وضو اور تیمم کے وقت دونوں ہاتھوں کا دھونا یا مسح کرنا بھی ضروری تھا مگر جہاں ہاتھ ہی نہیں ان کا دھونا کیسا؟ اسی طرح جہاں رمضان ہی نہیں وہاں رمضان کے روزے چہ معنی دارد۔ یہ قول بعض علماء کا ہے اور بعض علماء نے فرمایا ہے کہ مقصود بالذات خود نماز اور روزہ ہے اور اوقات کی تعین وہاں ہے جہاں اوقات ہوں اور جہاں اوقات نہ ہوں وہاں وہ عبادات مقصودہ ساقط نہیں ہوں گی۔ وقت کا اندازہ کرکے نماز بھی پڑھی جائے گی اور روزہ بھی رکھا جائے گا اور احتیاط اسی قول میں ہے۔ اور اگر کسی کے نزدیک آیت موصوفہ اس حکم پر دلالت کرنے کے لیے کافی نہ ہو اور اس کی وجہ سے اس حکم کو غیر مذکور فی القرآن کہا جائے تو اس صورت میں اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بالعموم قطبین پر بنی آدم کے