تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور قرآن شریف چوں کہ انہیں کی زبان میں اور انہیں کے محاورات کے مطابق نازل ہوا ہے‘ لہٰذا ان کے سامنے ہزار سے زیادہ کا کوئی عدد کیسے بولا جا سکتا تھا؟ اس لئے ان کی آخری گنتی کا لفظ بول کر آگے اللہ تعالیٰ نے صرف اتنا فرما دیا کہ ’’اس سے بھی زیادہ‘‘ اب اس سے زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے‘ کروڑ بھی اس میں آ گیا اور ارب اور کھرب اور نیل و سنکھ اور مہاسنکھ سب اسی میں آگئے تو گویا شب قدر کی فضیلت کی زیادتی کی کوئی حد نہیں ہے۔ کیا تمام دنیا میں ایک ہی وقت میں شب قدر ہوتی ہے؟ :اختلاف مطالع کے سبب مختلف ملکوں اور شہروں میں شب قدر مختلف دنوں میں ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں‘ کیونکہ ہر جگہ کے اعتبار سے جو رات شب قدر قرار پائے گی اس جگہ اسی رات میں شب قدر کی برکات حاصل ہوں گی۔ واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم۔ :جس شخص نے شب قدر میں عشاء اور صبح کی نماز جماعت سے پڑھ لی اس نے بھی اس رات کا ثواب پا لیا‘ اور جو شخص جتنا زیادہ کرے گا‘ زیادہ ثواب پائے گا۔ صحیح مسلم میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص نے عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کر لی تو آدھی رات کے قیام کا ثواب پا لیا‘ اور جس نے صبح کی نماز بھی جماعت سے ادا کر لی تو پوری رات جاگنے‘ عبادت کرنے کا ثواب حاصل کر لیا۔ [معارف القرآن ص ۷۹۳ ج ۸] شب قدر کے معنی قدر کے معنی عظمت و شرف کے ہیں‘ اور اس رات کو لیلۃ القدر کہنے کی وجہ اس رات کی عظمت و شرف ہے۔ حضرت ابوبکر وراقؒ نے فرمایا کہ اس رات کو لیلۃ القدر(شب قدر) اس وجہ سے کہا گیا کہ جس آدمی کی اس سے پہلے اپنی بے عملی کے سبب کوئی قدر و قیمت نہ تھی اس رات میں توبہ و استغفار اور عبادات کے ذریعہ وہ بھی صاحب قدر و شرف بن جاتا ہے۔ قدر کے دوسرے معنی تقدیر و حکم کے بھی آتے ہیں۔ اس معنی کے اعتبار سے لیلۃ القدر کہنے کی وجہ یہ ہو گی کہ اس رات میں تمام مخلوقات کے لئے جو کچھ تقدیر ازلی میں لکھا ہے اس کا جو حصہ اس سال رمضان سے اگلے رمضان تک پیش آنے والا ہے وہ ان فرشتوں کے حوالہ کر دیا جاتا ہے جو کائنات کی تدبیر اور تنفیذ امور کے لئے مامور ہیں۔ اور بعض حضرات نے جو لیلہ مبارکہ سے نصف شعبان کی رات یعنی شب برأت مراد لی ہے تو وہ اس کی تطبیق اس طرح کرتے ہیں کہ ابتدائی فیصلے امور تقدیر کے اجمالی طور پر شب برات میں ہو جاتے ہیں پھر ان کی تفصیلات لیلۃ القدر (یعنی شب قدر میں جو رمضان میں آتی ہے) میں لکھی جاتی ہیں اس کی تائید حضرت ابن عباسw کے ایک قول سے ہوتی ہے اس میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سال بھر کے تقدیری امور کا فیصلہ تو شب برأت یعنی نصف شعبان کی رات میں کر لیتے ہیں پھر شب قدر میں یہ فیصلے فرشتوں کے سپرد کر دیئے جاتے ہیں۔ [تفسیر مظہری] اور یہ پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ امور تقدیر کے فیصلے اس رات میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس سال میں جو امور تقدیر نافذ ہونے ہیں وہ لوح محفوظ سے نقل کرکے