تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں ہمیشہ بیس رکعتیں پڑھا کروں گا‘ بس بالکل تسلی ہو گی۔ سبحان اللہ کیا طرز ہے سمجھانے کا۔ حقیقت میں یہ لوگ حکماء امت ہوتے ہیں۔ [روح القیام] علمی تحقیق آج میں نے ایک صاحب کے خط کاجواب لکھا ہے اور تعجب ہے کہ وہ صاحب پڑھے لکھے بھی ہیں‘ اگرکوئی جاہل ہو تو اسے سمجھانا آسان ہے مگر یہ پڑھے لکھے لوگ مشکل سے سمجھتے ہیں۔ اس خط میں لکھا تھا کہ آج کل طبیعتوں میں سستی غالب ہے اگر ان احادیث پرعمل کر لیا جائے جن میں آٹھ یا بارہ رکعت کی تصریح ہے تو کیا حرج ہے‘ مجھے بھی فکر ہوئی کہ اس کاکیا جواب لکھوں۔ پھر میں نے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ اس کا کوئی جواب سمجھا دے چنانچہ حق تعالیٰ نے مجھے سمجھا دیا میں نے لکھا کہ یہ سیدھی سی بات ہے کہ بیس رکعت کے سنت موکدہ ہونے پر اجماع منعقد ہو چکا ہے اور اجماع کی مخالفت ناجائز ہے اور یہ اجماع علامت ہے ان احادیث کے منسوخ ہونے کی اور اگر اجماع میں یہ شبہ ہو کہ بعض علماء نے صرف آٹھ رکعت کو سنت موکدہ لکھا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اجماع اس قول سے منعقد ہے پس اس کے مقابلہ میں شاذ قول قابل اعتبار نہیں ہو گا جب بیس رکعت کا سنت موکدہ ہونا ثابت ہو گیا تو اس کے ترک کرنے سے عتاب کا مستحق ہو گا۔ انہوں نے ایک بات اور لکھی تھی کہ صاحب فتح القدیر کی رائے ہے کہ آٹھ رکعتیں پڑھنی چاہئیں میں نے لکھا کہ جمہور کے مقابلہ میں ایک صاحب فتح القدیر کی رائے نہیں چل سکتی خصوصاً جب کہ ان کا عمل خود ان کے خلاف ہو کیوں کہ صاحب فتح القدیر کی یہ علمی تحقیق ہے مگر پڑھیں انہوں نے بھی ہمیشہ بیس۔ لہٰذا ان کی تحقیق قابل عمل نہیں ہے۔ [روح القیام] ۲۰ رکعت تراویح کا شرعی حکم اگر کوئی شخص عذر کی وجہ سے آٹھ رکعت پڑھ لے تو کیا حکم ہے؟ سوال: اگر کوئی شخص ضعف اور دیگر امراض کی وجہ سے تراویح کی بیس رکعت نہ پڑھ سکے اور صرف آٹھ یا بارہ پڑھ لے تو گناہ تو نہ ہو گا؟ جواب: تراویح بیس رکعت سنت موکدہ لکھا ہے‘ اس سے کم پڑھنے والا سنت موکدہ کا تارک ہو گا‘ پس جو عذر ترک سنت موکدہ کے لیے معتبر ہے وہ اس میں بھی معتبر ہو گا ورنہ اگر کھڑے ہو کردشوار ہو تو دشواری کے بقدر بیٹھ کر پڑھ لے۔ [امداد الفتاوی] تراویح کی جماعت میں کوتاہی بڑے افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ تراویح کی جماعت سنت موکدہ علی الکفایہ ہی تو ہے بس محلہ کے چند لوگ جماعت سے پڑھ لیں گے۔ ہماری طرف سے بھی ادا ہو جائے گی۔ کیا ظلم و ستم ہے‘ تم خدا کے ساتھ قانون بگھارتے ہو؟ اگر خدا تعالیٰ بھی اپنی عطاء کے وقت قانون برتیں کہ جس طرح تم ضروری ارکان ادا کرتے ہو‘ وہ بھی ضرورت کے موافق دے دیا کریں تو بتاؤ تمہارا کیا حال ہو گا۔ مثلاً ایک دن تمہیں آدھ پاؤ سے زیادہ اناج نہ دیں یا ایک لوٹے سے زیادہ پانی نہ دیں تو تم کیا کر لو گے کیوں کہ کسی کو دینا ان پر واجب تو ہے نہیں محض اپنے فضل و رحمت اور احسان سے دیتے ہیں۔ اب