تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
الفاظ قرآن کے بغیر صرف اردو ترجمہ غرض بعض جہات سے الفاظ کو زیادہ قرب ہے اور بعض جہات سے معانی کوزیادہ قرب ہے اور کوئی ایک دوسرے سے مستغنی اور بے پرواہ کرنے والا نہیں۔ الحمد للہ مختلف وجوہ سے اس مسئلہ کو ثابت کر دیا گیا ہے کہ الفاظ قرآن بدوں فہم (بغیر معنی سمجھنے کے) معنی کے بھی مطلوب ہیں۔ اور ان کا پڑھنا ہرگز بے کار نہیں۔ اب یہ دعویٰ بالکل باطل ہو گیاکہ بدوں معنی کے الفاظ پڑھنے سے کیا فائدہ؟ اس خیال کے لوگوں نے ایک قرآن صرف اردو ترجمہ کی صورت میں بدوں متن قرآن کے شائع کیا ہے۔ خوب سمجھ لیجئے کہ اس کا خریدنا حرام و ناجائز ہے کیونکہ اس کا منشاء وہی ہے کہ یہ لوگ الفاظ قرآن کو بیکار سمجھتے ہیں۔ دوسرے اس میں بڑی خرابی یہ ہے کہ اگر یہ صورت شائع (عام) ہو گئی تو اندیشہ ہے کہ کبھی یہود و نصاریٰ کی طرح مسلمانوں کے پاس بھی صرف قرآن کا ترجمہ ہی رہ جائے اور اصل غائب ہوجائے۔ جیسا کہ توراۃ و انجیل کے تراجم ہی آج کل دنیا میں رہ گئے ہیں اور اصل کتاب معدوم (ختم) ہو گئی۔ پھر ترجمہ کے اندر ہر شخص کو آسانی سے تحریف (رد و بدل) کا موقع مل جائے گا اور جب اصل قرآن بھی ترجمہ کے ساتھ ہو گا تو کسی کی تحریف چل نہیں سکتی۔ کیونکہ اس سے ہر شخص ترجمہ کا مقابلہ اصل سے کرکے اس کی صحت و خطاء کا موازنہ کر سکتا ہے اس خیال کے بعض لوگوں نے ایک زمانہ میں یہ حرکت بھی شروع کی تھی کہ نماز کے اندر قرآن کا اردو ترجمہ پڑھنے لگے تھے اور دلیل وہی تھی کہ بے سمجھے قرآن پڑھنے سے کیا نفع ہے اس کے چند جواب عقلی اور نقلی اوپر گزر چکے ہیں۔ قرآن پاک کے الفاظ کی خاصیتیں ایک اور جواب جو ان لوگوں کے مذاق کے موافق اور اس خیال کی جماعت پر زیادہ اثر انداز ہو سکتا ہے ذیل میں تحریر ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ بعض خاصیتیں قرآن مجید کے الفاظ کی ہیں اور بعض خاصیتیں اس کے معانی کی۔ معانی کی خاصیت تو یہ ہے کہ ان کو سمجھ کر پڑھنے سے قرآن کا مطلب معلوم ہو گا اور الفاظ کی خاصیت متکلم کی عظمت و شوکت اور صولت کا استحضار ہے اور یہ صرف قرآن ہی کے ساتھ خاص ہے‘ دوسری کسی زبان کو خواہ اس میں کیسا ہی فصیح و بلیغ ترجمہ کر دیا جائے ہرگز نصیب نہیں ہو سکتی اور عبادت سے مقصود معبود کی عظمت دل میں پیدا کرنا ہے اور افعال و جوارح سے اس عظمت کا ظاہر کرنا ہے نہ کہ صرف استحضار قصص و واقعات۔ پس جو لوگ اردو ترجمہ سے نماز پڑھیں گے ان کے دل میں خدا تعالیٰ کی وہ عظمت نماز کے اندر پیدا نہیں ہو گی جو الفاظ قرآن کے ساتھ نماز پڑھنے والوں کے دل میں آتی ہے کیونکہ جو لوگ نماز میں ایسی زبان میں قرآن پڑھیں گے جو بندوں کی ایجاد ہے جو یقینا اصلی کلام الٰہی کے برابر باعظمت و باشوکت نہ ہوگی۔ نیز ان لوگوں کو نماز میں یکسوئی بھی حاصل نہ ہو گی۔ کیونکہ یکسوئی کے لیے استحضار عظمت ضروری ہے اور ترجمہ سے اس درجہ استحضار عظمت نہ ہو گا جو اصل قرآنی الفاظ سے ہوتا ہے۔ غرض محبت و عشق خداوندی کے لحاظ سے بھی اور نقل و عقل کے اعتبار سے بھی الفاظ قرآن کے اہتمام کا نہایت ضروری ہونا ثابت ہو گیا۔