تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جیسے حق تعالیٰ کلام فرماتے ہیں اسی طرح بندہ بھی کلام کر رہا ہے۔ تلاوت کا طریقہ تلاوت کا طریقہ بھی اہل طریق نے اس طرح تجویز کیا ہے کہ بندہ پڑھنے کے وقت یہ تصور کرے کہ گویا بندہ گراموفون ہے اور متکلم حق سبحانہ تعالیٰ ہیں کہ اپنے کلام کو حق تعالیٰ نے اس میں بند کر دیا ہے اور وہ اس میں سے بلا قصد (بغیر ارادہ کے) نکل رہا ہے گویا یہ تجلی کلامی ایسی ہی ہو رہی ہے کہ جیسے شجرہ طور پر ہوئی تھی درخت سے آواز آ رہی تھی کہ اِنِّیْ اَنَا اللّٰہُ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اَنَا وہ کلام حقیقت میںشجر (درخت) کا نہ تھا شجرہ تو محض واسطہ تھا۔ متکلم اللہ تعالیٰ تھے اسی طرح بندہ کی آواز سے اللہ تعالیٰ کلام فرما رہے ہیں جس طرح نے یعنی بانسری میں سے آواز نکلتی ہے کہ وہ حقیقت میں نے کی آواز نہیں بلکہ بجانیوالے کی آواز ہے کہ نے میں سے ہو کر نکل رہی ہے۔ پس تلاوت ایسی چیزہے کہ اس میں پورا تشبہ ہے بندہ کو حق تعالیٰ کے ساتھ اور جس کو کسی سے تشبہ ہو وہ اس کا مقرب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بادشاہ سواری پر نکلتے ہیں تو بعض مصالح سے مصاحبین کو اپنے جیسا لباس پہناتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے تلاوت کرنے والے بندوں کو گویا اپنا خاص لباس کلام پہنایا۔ گویا بندے خاص مصاحب ہیں کہ ان کو لباس کلام سے آراستہ فرمایا ہے۔ بڑے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے سینوں میں کلام اللہ ہے۔ کلام اللہ بڑی دولت ہے کلام اللہ بڑی دولت ہے اس کی بے قدری نہ چاہئے۔ اس کی قدر کرو اور پڑھو خواہ سمجھ کر یا بے سمجھے کیونکہ کلام اللہ کی تلاوت سمجھ کر ہو یا بے سمجھے ہو اس میں خاصیت تشبہ بالحق کی ہے اور یہی خاصیت ہے روزہ کی کہ اس میں بھی حق تعالیٰ کے ساتھ تشبہ ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی شان ہے نہ کھانا نہ پینا‘ نہ بی بی رکھنا اور روزہ میں بندہ کی یہی حالت ہوتی ہے۔ روزہ میں ایک صمدیت (بے نیازی) کی شان ہے۔ لہٰذا دونوں عملوں میں تشبہ بالحق ہوا۔ یعنی تلاوت قرآن میں اور روزہ میں‘ یہ دونوں عمل رمضان میں ہیں اسی لیے دونوں عملوں کو رمضان سے مناسبت ہوئی۔ ایک مناسبت قرآن اور روزہ میں یہ ہے کہ کلام اللہ سے انوار پیدا ہوتے ہیں۔ یہی خاصیت روزہ کی ہے کہ اس سے بھی انوار پیدا ہوتے ہیں یہ دوسری بات ہے کہ انوار پیدا ہونے کی وجہ علیحدہ علیحدہ ہو۔ یعنی تلاوت میں اور وجہ ہو اور روزہ میں اور۔ وہ یہ کہ تلاوت عبادت وجودی ہے (یعنی اس میں کچھ کرنا پڑتا ہے) اور روزہ عدمی (یعنی اس میں کچھ چھوڑنا ہوتا ہے) دونوں میں تفاوت (فرق ہے) ہے مگر نورانیت پیدا کرنے میں مشترک ہیں۔ روزہ سے نور پیدا ہوتا ہے چنانچہ روزہ سے تو نور اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ کھانے سے قوت بہیمیہ میں ترقی ہوتی ہے اور نار شہوت بھڑکتی ہے اور اس کا غلبہ منافی (مخالف) ہے نور کے‘ اور جب روزہ میں آدمی کھانے پینے سے رکے گا تو نار شہوت میں کمی ہو گی اور اس کمی سے نور میں ترقی ہو گی۔ مگر روزہ کے بعد بھی مادہ شہوت باقی رہتا ہے اور اس کے رہنے میں بھی حکمت ہے کیونکہ نار شہوت گو ایک درجہ میں منافی (مخالف) ہے نور کے۔ مگر بدوں (بغیر) اس