تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
احادیث میں آئے ہیں وہ سب برحق ہیں ان پر یقین رکھئے۔ خود روزہ رکھ کر ثواب حاصل کیجئے اور اپنے لیے اور اپنی وسعت کے مطابق اعزہ و اقارب اور دیگر احباب یا عام مسلمانوں کے روزے افطار کرا کر ان کے روزہ کا ثواب حاصل کیجئے اتنا عظیم اجر و ثواب صرف ایک گھونٹ پانی پلانے پر مل رہا ہے جلدی کیجئے لوٹ کا وقت ہے جس قدر ثواب حاصل کرنا ہے اور جتنے روزوں کا ثواب لینا ہے حاصل کیجئے۔ یہ موقعہ پھر ہاتھ نہیں آئے گا اور اس کو نہایت غنیمت جانئے اور پھر ثواب ہی نہیں بلکہ ہر ہر شخص کے روزہ افطار کرانے کے ساتھ دوزخ سے نجات کا پروانہ اور گناہوں کی معافی کی ضمانت بھی موجود ہے اور آخرت کی نجات کا دار و مدار انہی باتوں پر ہے۔ بھلا بتایئے جس شخص کے گناہ معاف کر دیئے گئے ہوں اور جہنم سے نجات کا پروانہ اور بے انتہا اجر و ثواب اس کے ہمراہ ہو اس کو آخرت میں کیا غم ہو گا؟ وہ بڑے سکون و چین سے ہو گا‘ چہرہ مسرت و شادمانی سے تر و تازہ ہو گا۔ اگر آپ بھی اس اجر عظیم کے حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں تو افطار کرانے کا اہتمام کیجئے خواہ معمولی چیز سے ہو کچھ نہ ہو تو پانی سے ہی افطار کرایئے۔ افطار کرانے کا اہتمام حماد بن سلمہ ؒ ایک مشہور محدث ہیں‘ روزانہ پچاس آدمیوں کے روزے افطار کرانے کا اہتمام فرماتے تھے۔ [روح البیان] افطار کرانے کا ثواب سب سے اول چیز کھانے پر موقوف نہیں بعض لوگوںکو دیکھا جاتا ہے کہ وہ افطار کراتے وقت اس کا بہت اہتمام کرتے ہیں کہ روزہ دار سب سے پہلے اس کی چیز سے افطار کرے اور یہ سمجھتے ہیں کہ روزہ دار جو چیز سب سے پہلے منہ میں رکھے گا‘ اسی سے روزہ افطار کرانے کا ثواب ملے گا یہ تو خدائے رحیم و کریم کی رحمت کو تنگ کرنا ہے۔ اللہ پاک کی رحمت و عنایت بے انتہا ہے‘ اپنے اساتذہ سے سنا ہے کہ روزہ افطار کرتے وقت روزہ دار جو چیز تناول کرتا ہے سب روزہ کی افطاری میں شامل ہے‘ افطار کرتے وقت جو چیز پہلے کھائی اور جس پر افطاری ختم کی سب کا ایک حکم ہے اس لیے روزہ دار افطار کے وقت جس جس شخص کی افطاری تناول کرے گا تو ان میں سے ہر شخص کو افطار کرانے کا ثواب ملے گا‘ اللہ پاک کی شان کریمی سے یہی امید رکھنی چاہئے۔ جو ناحقیقت شناس اللہ پاک کی شان کرم سے ناآشنا ہیں انہی کے دل اس بارے میں تنگ ہو سکتے ہیں۔ حلال سے افطار کرانے کی فضیلت حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سید الاولین جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ((مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلٰی طَعَامٍ وَشَرَابٍ مِنْ حَلاَلٍ صَلَّتْ عَلَیْہِ الْمَلَائِکَۃُ فِیْ سَاعَاتِ شَہْرِ رَمَضَانَ وَصَلّٰی عَلَیْہِ جِبْرِیْلُ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ‘ رَوَاہ الطبرانی فی الکبیر و ابو الشیخ بن حبان فی کتاب الثواب الا انہ قال وَصَافَحَہٗ جِبْرَئِیْلُ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ وَزَادَ فِیْہِ وَمَنْ صَافَحَہٗ جِبْرِیْلُ علیہ السلام بَرِقَ قَلْبُہٗ وَتَکَثَّرَ دُمُوْعَۃ قَالَ فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَفَرَأَیْتَ مَنْ لَّمْ یَکُنْ عِنْدَہٗ قَال فَقَبْضَۃٌ مِنْ طَعَامٍ قُلْتُ اَفَرَأَیْتَ اِنْ لَّمْ یَکُنْ عِنْدَہٗ لُقْمَۃُ خُبْزٍ قَالَ فَمُذْقَۃٌ مِّنْ لَّبنِ قَالَ اَفَرَأَیْتَ اِنْ لَّمْ تَکُنْ عِنْدَہٗ قَالَ فَشَرْبَۃٌ مِّنْ مَّائٍ)) [الترغیب ص ۹۶ج ۲]