تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شب اور گزرنا چاہئے۔ کوئی یہ نہ کہے کہ افطروا لرویۃ پر تو عمل ہو گیا چاند دیکھ کر افطار کر لیا تھا اب رات میں کھانا نہ کھانا اور اذان کے وقت کھانا فعل ہے میں کہتاہوں کہ انکار اکل یا عدم اکل پر نہیں بلکہ یہاں عقیدہ میں فساد ہے چنانچہ اس کو روزہ کھولنے سے تعبیر کرنا اس کی دلیل ہے اور زیادت فی الدین نہیں تو کیا ہے؟ ایسے موقع پر تو بالقصد رسم توڑنے کے لئے فجر سے پہلے ہی کھانا چاہئے۔ بعض کا خیال یوں ہے کہ عقیدہ بدل دو اور درست کر دو لیکن اعمال کے بدلنے میں عام مخالفت ہوتی ہے اگر عمل باقی رہے جو کہ مباح ہے اور عقیدہ درست ہو جائے تو کیا حرج ہے لیکن یہ خیال غلط ہے اس لئے کہ ثابت ہوتا ہے تجربہ سے کہ جیسا کہ عقیدہ کو اثر ہے عمل میں ایسا ہی اس کا عکس بھی ہے ایک مدت تک میں اس خیال میں رہا کہ علماء کیوں پیچھے پڑے ہیں نکاح ثانی کے؟ جائز ہی تو ہے‘ کیا کیا‘ نہ کیا نہ کیا پھر سمجھ میں آیا کہ حرج صدر سے نہیں نکلتا مگرعمل کو ایک مدت بدل دینے سے اس لئے رسوم میں عمل کی تبدیلی بھی ضروری ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ عید کی شب میں کھانا فرض ہے بلکہ اخراج حرج کے لئے ایسا کرنے سے ضرور ماجور ہو گا اس کی نظیریں حدیث شریف میں موجود ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ منع فرما دیا بعض روغنی برتنوں میں نبیذبنانے سے پھر فرماتے ہیں کنت نھیتکم عن الدباء و الحنتم فانبذوا فیھا فان الظرف لایحل شیئا ولا یحرم یعنی پہلے میں نے منع کر دیا تھا اب اس میں نبیذ بنایا کرو اور علت ارشاد بیان فرماتے ہیں کہ برتن نہ کسی چیز کو حرام کرتا ہے اور نہ حلال کرتا ہے پھر باوجود اس کے بھی منع فرما دیا تھا صرف وجہ یہ تھی کہ لوگ شراب کے عادی ہیں تھوڑے سے نشہ کو محسوس نہ کر سکیں گے اور ان برتنوں میں پہلے شراب بنائی جاتی تھی اس لئے خمر سے پورا اجتناب نہ کر سکیں گے اور گنہگار ہوں گے پس پورے اجتناب کا طریقہ یہی ہے کہ ان برتنوں میں نبیذ بنانے سے مطلقاً روک دیا جائے جب طبیعتیں خمر سے بالکل نفور ہو جائیں اور ذرا سے نشہ کو بھی پہچاننے لگیں تو پھر اجازت دے دی جائے۔ اسی طرح ان رسموں کی حالت ہے کہ ظاہری اباحت دیکھ کر لوگ ان کو اختیار کرتے ہیں اور ان منکرات کو پہچانتے نہیں جو فاصلہ ان کے ضمن میں ہیں تو اس کے لئے اصلاح کا کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا سوائے اس کے کہ چند روز اصل عمل ہی کو ترک کر دیں اور یہ بات کہ اصل عمل باقی رہے اور منکرات عام طور پر دورہو جائیں سو ہمارے امکان سے تو باہر ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی نے یہ طریقہ اختیار فرمایا تھا تو ہم کیا ہیں کہ اس کے سوا اور تدبیریں اختیار کرتے پھریں جب ایک تدبیر عقلاً بھی مفید معلوم ہوتی ہے اور نقلاً ثابت ہو چکی تو ضرورت ہی کیا ہے کہ اس سے عدول کیاجائے۔ سو یوں کی تخصیص ایک رسم عید کے دن ایک کھانے کی تعیین کی ہے کہ سویاں ہی پکائی جاتی ہیں اور اس میں ایک مصلحت ہے جس کی وجہ سے اس کو اختیار کیا گیا ہے وہ یہ کہ اس کی تیاری میں زیادہ بکھیڑے کی ضرورت نہیں اور دن کو عید کا کام کاج ہوتا ہے اور مستحب ہے