تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
و سلم فرماتے ہیں انا حبیب اللّٰہ ان القاب سے زیادہ باوقعت کون سے القاب ہوں گے جو آپ ان کو چھوڑ کر غیر قوموں کے مخترعہ القاب کو اختیار کرتے ہیں ایسے ہی خلوت کا قدیم لفظ ہے اللہ تعالیٰ نے ہم کو بجائے اس کے اعتکاف سکھلایا ہے ارشاد ہے: {فَلاَ تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسَاجْدِ} اور فرماتے ہیں: {لِلطَّائِفِیْنَ وَالْعَاکِفِیْنَ} گو لفظ خلوت کا استعمال بھی جائز ہے‘ بزرگوں کے کلام میں بھی ہے مگر جس خلوت کا لقب اعتکاف فرمایا ہے وہاں یہ لفظ اختیار کرنا چاہئے۔ وَطَھّْرْ بَــیْتِیَ ہمارے اعتکاف او رغیروں کی خلوت یہ کلام تو عنوان میں تھا اور ان کی اور ہماری خلوت میں بدرجہ معنون بھی فرق ہے ہماری خلوت بوجہ رعایت حدود محمود ہے اور ان کی خلوت کی اللہ تعالیٰ نے مذمت فرمائی ہے چنانچہ ارشاد ہے فَمَا رَعَوْھَا حَقَّ رْعَایَتِھَا وجہ یہ ہے کہ جب حدود کی رعایت نہ ہو تو کیسی ہی اچھی چیز ہو وہ بھی مذموم ہو جاتی ہے اور ان کی خلوت میں چند نوع کی کمی تھی اول تو بوجہ طویل ہونے کے ہر شخص اس سے منتفع نہیں ہو سکتا تھا اس لئے مدت العمر تمام تعلقات چھوڑ کر کیسے کوئی شخص محبوس رہ سکتا ہے۔ حق تعالیٰ نے ایسا مختصر زمانہ اس کے لئے مقرر فرمایا ہے کہ ہر شخص کو آسان ہے اور دوسرے وہ خلوت ایسی جگہ کرتے تھے جہاں پرندہ پر نہ مار سکے یعنی وہ پہاڑوں کے غاروں اور جنگل کے گوشوں میں جا کر بیٹھتے تھے کہ خواہ مخواہ وحشت ہو کر آدمی آدمیت سے نکل کر وحوش میں شامل ہو جاوے اللہ تعالیٰ نے اس کی عجیب و غریب اصلاح فرمائی وہ یہ کہ اعتکاف کو مسجد میں مشروع فرمایا کہ جن سے خلوت مقصود تھی ان سے یکسوئی ہو گئی یعنی ناجنسوں سے اور جن سے یکسوئی مقصود نہ تھی یعنی اپنے ہم جنس ان سے خلوت نہیں ہوئی۔ قصہ مجھے قصہ یاد آیا کہ ایک مرتبہ ہمارے حضرت حاجی صاحب تنہا بیٹھے تھے میں وہاں جا پہنچا جب میں نے دیکھا کہ حضرت تنہا ہیں تو میں نے عرض کیا کہ حضرت میں مخل وقت ہوا فرمانے لگے کہ نہیں خلوت ازا غیار نہ ازیار‘ تم تو اپنے ہم جنس ہو۔ حدیث: اور اسی مضمون کی موید حدیث یاد آئی‘ ارشاد ہے: ((الوحدۃ خیر من الجلیس السوء و الجلیس الصالح خیر من الوحدۃ)) ’’تنہائی برے ہم نشین سے بہتر ہے اور اچھا ہم نشین تنہائی سے بہتر ہے۔‘‘ سبحان اللہ! شریعت نے کیا اعتدال سکھایا ہے اور راز اس میں یہ ہے کہ خلوت کا مقصود تو یہ ہے کہ مشغولی بحق بڑھے لیکن جب اچھا جلیس کوئی ملے تو اس سے مشغولی مع اللہ بہ نسبت خلوت کے زیادہ ہوتی ہے میں بقسم کہتا ہوں کہ یار موافق سے جس قدر حضوری اور مشغولی بڑھتی ہے اس قدر خلوت سے نہیں بڑھتی چنانچہ مجھ کو اس وقت جس قدر لطف بوجہ جلوت کے اس بیان میں آ رہا ہے اس قدر خلوت میں نہیں آتا۔ معتکف کا سامان اور اس حکمت سے بھی معلوم ہوا کہ معتکف کو اپنا ضروری سامان مسجد میں رکھنا