تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
علم تجوید حاصل کرنا واجب ہے پس مسلمانوں کو تعلیم قرآن اور تلاوت قرآن کا پابندی کے ساتھ اہتمام کرنا چاہئے اور جب الفاظ قرآن مقصود ہیں تو ان کے صحیح پڑھنے کا بھی اہتمام ضروری ہے کیونکہ جب تک الفاظ کو صحیح طور پر ادا نہ کیا جائے گا اس وقت تک وہ عربی زبان نہ کہلائے گی۔ اس واسطے شرعاً علم تجوید کا حاصل کرنا ضروری اور واجب ہے حتیٰ کہ علامہ جزری نے فرمایا ہے کہ جو معلم تجوید کے ساتھ نہ پڑھاتا ہو اس کوتنخواہ لیناجائز نہیں ہے۔ (نہایۃ القول المفید)البتہ جو شخص قرآن کے صحیح کرنے کے لیے پوری کوشش میں لگ جائے اور کسی قاری سے حروف کے صحیح کرنے کی مشق شروع کر دے مگر پھر بھی اس کی زبان کے اندر نقص ہونے کی وجہ سے حروف صحیح نہیں ہوئے اور قاری نے کہہ دیا کہ تم سے امید نہیں ہے کہ تمہاری زبان درست ہو گی تو اس وقت وہ معذور ہے اور اس کو اجازت ہے کہ جس طرح بھی وہ پڑھ سکتا ہے پڑھتا رہے۔ اب اس پر غلط پڑھنے کی وجہ سے کوئی مواخذہ (گرفت) نہیں ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو وہی ثواب دیں گے جو صحیح پڑھنے والوں کو دیا جاتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ قرآن کا ماہر ان فرشتوں کے ساتھ ہو گا جو لکھنے والے بزرگ نیکو کار ہیں اور وہ شخص جو قرآن پڑھنے میں اٹکتا ہے اور قرآن کا پڑھنا اس پر مشکل ہوتا ہے اس کے واسطے دوہرا ثواب ہے۔ [بخاری و مسلم] ماہر قرآن کون ہے ؟ ماہر قرآن سے وہ شخص مراد ہے جس کو قرآن خوب یاد ہو اور پڑھنے میں اس کو دشواری پیش نہ آتی ہو اور فرشتوں سے مراد وہ فرشتے ہیں جو کہ لوح محفوظ سے اللہ تعالیٰ کی کتابیں لکھتے ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ ماہر قرآن دنیا میں ان فرشتوں جیسا عمل کرتا ہے کہ بے تکلف قرآن کو فرشتوں کی طرح پڑھتا ہے اور آخرت میں اس کو درجات ملیں گے ان میں وہ فرشتوں کا رفیق (ساتھی) ہو گا اور دوہرے ثواب سے مراد یہ ہے کہ ایک ثواب پڑھنے اور اور دوسرا ثواب اس میں مشقت اٹھانے کا ملتا ہے۔ اس میں رغبت دلائی ہے اٹک کر پڑھنے والے کو قرآن پاک کی طرف کہ اس طرح پڑھنے میں بھی فضیلت اور ثواب حاصل ہے بلکہ مشقت کے اعتبار سے اس میں زیادہ ثواب ہے قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے پر بڑا اجر و ثواب ملتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ((خَیْرُ کُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗ)) [بخاری] ’’تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن کریم کو سیکھے اور سکھلا وے۔‘‘ کلام پاک چونکہ دین کی اصل ہے اس کی حفاظت اور بقا پر ہی دین کا مدار ہے اس لیے اس کے سیکھنے اور سکھانے کا افضل ہونا ظاہر ہے۔ حافظ قرآن کا مقام حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا صاحب قرآن (مراد حافظ قرآن ہے) کو کہا جائے گا کہ قرآن پڑھ اور اوپر چڑھ یعنی بہشت کے درجوں پر اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسا کہ تو ٹھہر ٹھہر کر دنیا میں پڑھتا تھا۔ پس تیرا ٹھکانا وہی ہے جہاں آخری آیت پر تو پہنچے۔