تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
سبحان اللہ کیا اعتدال ہے۔ حکماء کی تجویز کردہ خلوت میں یہ باتیں کہاں اور جب اپنے کو برکات میں ان کا محتاج سمجھے گا تو اس کو کبر نہ ہو گا اور اس کے لوازم میں سے ہے خلوت میں اس کی وہ نیت نہ ہو گی جو جہلاء کی ہوتی ہے کہ وہ اس لیے خلوت اختیار کرتے ہیں تاکہ وہ لوگوں کے ضرر سے بچیں غرض اوروں کو حقیر سمجھنے کا جو مرض خلوت سے پیدا ہو سکتا تھا اس کا بھی علاج ہو گیا کہ جن کو یہ حقیر سمجھ کر الگ ہوا تھا وہی اہل برکت ہیں انہیں کی بدولت اسے برکت جماعت حاصل ہوئی۔ نیز اسے اس پر بھی اب ناز نہ ہو گا کہ میرے اعتکاف کی وجہ سے اور لوگوں کو برکت پہنچی کہ سب سبکدوش ہوئے کیونکہ یہ خیال کر لے گا کہ اصل میں ان لوگوں کے آنے کی وجہ سے مجھے جماعت بلکہ اعتکاف کی بھی برکت حاصل ہوئی اور اس جماعت کے موقع ہونے سے مجھ کو اعتکاف کی اجازت ہوئی۔ پس میرا اعتکاف گو سبب ان کی سبکدوشی کا ہوا مگر وہ سبکدوشی تو اس اعتکاف کا صرف اثر ہے اور ان کی جماعت میرے اعتکاف کا سبب ہے اور سبب موثر ہوتا ہے تو وہ اگر اثر میں میرے محتاج ہوئے تو میں موثر میں ان کا محتاج ہوا اور اصل احتیاج موثر میں ہوتی ہے تو اصل میں بھی ان کا محتاج ہوا اور یہ پوراعلاج ہے کبر و عجب کا‘ سبحان اللہ کیسی دوا ہے کہ پرہیز بھی ہے اور دوا بھی ہے۔ لفظ عاکفون کا معنی اسی طرح ’’عاکفون‘‘ بھی دلالت کر رہا ہے ایک حکمت پر اس طرح سے کہ عکوف کے معنی حبس کے ہیں توعاکفون یہ بتا رہا ہے کہ اس میں حبس نفس مقصود ہے اس کا صلہ کبھی عن کے ساتھ آتا ہے اور کبھی فی یا علی کے ساتھ فی اور علی میں تو کوئی فرق نہیں۔ کیونکہ کسی چیز میں روکنا یا کسی چیز پر روکنا دونوں کا حاصل ایک ہی ہے البتہ جب عن کے ساتھ صلہ آتا ہے تو اس کے معنی مکروہ سے روک دینے کے ہوتے ہیں تو جس سے روکنا تھا اس کا یہاں عاکفون کے صلہ میں ذکر نہیں کیا مگر لاتباشروا سے اسکا پتہ لگ گیا یہاں صلہ لائے فی کے ساتھ۔ مطلب یہ کہ نفس کو مقید کر دو مساجد میں جو بیت اللہ ہیں۔ گدائے افتادہ بردر: خود خدا نے انہیں بیت اللہ فرمایا ہے۔ فی بیوت اذن اللّٰہ (ایسے گھروں میں( وہ جا کر عبادت کرتے ہیں) جن کی نسبت اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ان کا ادب کیا جائے)چنانچہ خانہ کعبہ کو بھی بیتی (میرا گھر ) فرمایا۔ اس معنی کو اپنی طرف منسوب کیا کہ اس میں اللہ کا ذکر اور اس کی عبادت ہوتی ہے۔ نماز تو بہت بڑی چیز ہے اس کی جگہ کیوں نہ منسوب الی اللہ ہوتی۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے بندے جس جگہ ذکر کریں تدارس قرآن کریں وہ بھی بیوت اللہ میں داخل ہے چنانچہ ارشاد ہے مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِیْ بَــیْتٍ مِنْ بُیُوْتْ اللّٰہِ یَتَدَارَسُوْنَ الْقُرْاٰنَ یعنی نہیں جمع ہوتی کوئی قوم کسی گھر میں اللہ تعالیٰ کے گھروں سے کہ تدارس کریں قرآن کا اور ظاہر ہے کہ تدارس کے لئے کہیں مسجد کا اہتمام نہیں کیا گیا جیسا نماز کے لئے ہوا ہے اس سے صاف معلوم ہوا کہ مدرسہ بھی بیوت اللہ میں داخل ہے اور اگر اسے عام میں نہ بھی لیا جائے تب بھی مساجد تو ضرور اللہ کے گھر ہی ہیں۔ اب معنی عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسَاجْدِ کے یہ ہوئے کہ عاکفون فی بیوت اللّٰہ (محبوس ہوتے ہیں وہ اللہ کے گھروں میں) اور بیوت اللہ میں محبوس ہونا کس