تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اب رہا دونوں میں فرق‘ سو بات یہ ہے کہ مباشرت میںچونکہ حاجت خفیف ہے اس لئے لاتباشروھن سے مباشرت کی ممانعت کر دی اور کھانے پینے کی حاجت شدید ہے اس کے کرنے کی بھی اجازت دی مثلاً مسجد کے اندر کھانے کی اجازت ہے۔ کھانا لانے کی اجازت کب ہے؟ اور لانے کی بھی اجازت دی جبکہ کوئی لانے والا نہ ہو یا اجرت گراں مانگتا ہو یا کسی سے درخواست کرنے میں اس کی زیادہ خوشامد کرنے کی ضرورت واقع ہو بالخصوص امام صاحب کے قول پر کیونکہ امام صاحب فرماتے ہیں کہ کسی رفیق سے پانی مانگنے کی ضرورت نہیں جب مانگنے میں ذلت ہو گو فتویٰ میں اس کا اعتبار نہیں کیا گیا۔ بلکہ تیمم کے جائز ہونے کا دار و مدار اس پر رکھا گیا ہے کہ غالباً گمان یہ ہو کہ نہ دے گا اسی طرح اگر کسی کے ملنے والے پاس ہیں مگر ان پر اس کی اطاعت واجب نہیں اور یہ شخص وضو کرنے پر قادر نہیں تو امام صاحب کے قول پر تیمم کر سکتا ہے کیونکہ اسے قدرت نہیں کہتے گو فتویٰ یہاں بھی اسی اوپر کی تفصیل سے ہے لیکن امام صاحب کی اصلی رائے وہی ہے ان کی نظر اس پر گئی کہ کسی سے مانگتے اور درخواست کرتے غیرت بھی آتی ہے۔ حقا کہ با عقوبت دوزخ برابر است رفتن بپائے مردی ہمسایہ در بہشت بخدا ہمسایہ کی سفارش وامداد سے جنت میں جانا عذاب دوزخ کے برابر ہے۔ امام ابو حنیفہ پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے رنگ کا غلبہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب کے اندر وہ رنگ غالب تھا جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بعض صحابہ کو تعلیم فرمایا تھا کہ کوڑا بھی گھوڑے پر سے گر جائے تو کسی سے مت مانگو خود اتر کر اٹھائو‘ تو اگر کوئی کھانا لانے میں نخرہ کرے یا اجرت زیادہ مانگے تو خود جا کر لے آئو۔ تجارت کی اجازت اور حاجت کی رعایت یہاں تک کی گئی ہے کہ اگر کوئی مثلاً بساطی ہے اور بساط اس کی اتنی ہی ہے کہ اسی پر گزر ہے تو اسے جائز ہے کہ وہ تجارت بھی مسجد میں کر لے مگر اسباب مسجد میں نہ لائے اورفقہاء متاخرین نے اور بھی وسعت کی ہے کہ بعض چیز دیکھی ہوئی نہیں ہوتیں اس لئے اس کے حاضر کرنے کی ضرورت پڑتی ہے تو انہوں نے لکھا ہے کہ اگر چھوٹی سی چیز ہو جس سے نمازیوں کو تکلیف نہ ہو اور مسجد مشغول نہ ہو تو اس کا مسجد میں بھی لانا جائز ہے ہاں صندوق لا کر مت رکھ دو بلکہ صندوق کو مارو بندوق البتہ اگر کوئی مختصر سی چیز ہو تو اس کے اندر لے آئو۔ میرے ایک دوست تھے لکھنؤ میں وہ جواہرات کے سوداگر تھے میں نے ان سے کہا کہ بھئی ہمیں بھی دکھائو جواہرات کیسے ہوتے ہیں وہ لائے تو ہزاروں روپے کے جواہرات زمرد‘ یاقوت‘ لعل‘ الماس ان کے پاس تھے اتنی چھوٹی سی ڈبیہ میں رکھے ہوئے تھے کہ ان کی جیب میں وہ ڈبیہ آ جاتی تھی تو اگر کسی کی ایسی ہی تجارت ہو تو اس کو سودا بھی مسجد کے اندر لے آنا جائز ہے۔