تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
$ رات % آسمان & اور جس نے آسمان و زمین کو بنایا (یہ کل سات ہوئے) حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قد بھی سات گز لمبا تھا‘ حضرت موسی علیہ السلام کا عصا بھی سات گز لمبا تھا۔ دل چسپ نتیجہ اس بیان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اکثر چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے سات کے حساب سے بنایا ہے اگر شب قدرر مضان کے آخری عشرہ میں ہے تو اوپر کے بیان سے یہ استدلال ہوتا ہے کہ شب قدر ستائیسویں شب کو ہو گی۔ قرآن کریم میں سورئہ قدر میں سَلٰمٌ ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرْ میں ھِیَ کا لفظ ستائیس حروف کے بعد آتا ہے۔ اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ شب قدر رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو ہوتی ہے۔ [غنیۃ الطالبین ص ۳۷۸] ستائیسویں شب میں قرآن ختم کرنا کیسا ہے؟ سوال: شب قدر کو رمضان المبارک کے آخر دس دنوں کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم ہے تو پھر ہمیشہ اور ہر سال رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو ہی شب قدر منانا اور اسی شب میں قرآن شریف کا ہر سال ختم کرنا بدعت ہو گا یا نہیں؟ صرف اسی رات کو زیادہ عبادت کرنا اور خصوصاً حافظوں کا ختم قرآن کرنا کیسا ہے؟ جواب: شب قدر‘ عشرہ اخیرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے مگر بہت سے علماء نے قرائن سے ستائیسویں کو ترجیح دی اور ظن غالب یہ ہے کہ ستائیسویں شب ہے‘ لیکن اس پر یقین نہیں اس طرح کہ دوسری راتوں کا نفی (انکار) کر دیا جائے ظن غالب کی بناء پر۔ اگر ستائیسویں شب کو ختم قرآن پاک تراویح میں کیا جائے تو افضل اور مستحب ہے۔ یقینی طور پر اسی رات کو شب قدر سمجھنا اور دوسری راتوں کی نفی کر دینا غلط ہے۔ ختم کا بھی (ہمیشہ ہی) اسی شب میں التزام نہ کیا جائے۔ عبادت‘ تلاوت‘ نماز وغیرہ کے لئے مساجد میں اس رات یا کسی اور رات میں جمع ہونا یا جماعت سے اہتمام کے ساتھ نوافل پڑھنا بدعت اور مکروہ ہے۔ [فتاویٰ محمودیہ ص ۸۹ ج ۱۱] شب قدر کی علامت ((وَمِنْ اَمَارَاتِھَا اِنَّھَا لَیْلَۃٌ بَلَجَۃٌ صَــافِیَۃٌ سَاجَۃٌ لَا حَارَۃٌ وَلاَ بَــارِدَۃٌ کَانَ فِیْھَا قَمَرًا سَاطِعًا لاَ یَنْحَلُّ اَنْ یَرْمِیْ بِہٖ لَکَ اللَّیْلَۃَ حَتَّی الصَّبَاحَ وَمِنْ اَمَارَاتِھَا اَنَّ الشَّمْسَ تَطْلَعُ صَبِیْحَتَھَا لاَشُعَاعَ لَھَا مُسْتَوِیَۃً کَاَنَّھَا الْقَمْرُ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ وَحَرَّمَ اللّٰہُ عَلَی الشَّیْطَانِ اَنْ یَّخْرُجَ مَعَھَا یَوْمَئِذٍ)) [در منثور علی احمد و البیہقی] ’’اس رات منجملہ اور علامتوں کے یہ ہے کہ وہ رات کھلی ہوئی چمکدار ہوتی ہے‘ صاف شفاف‘ نہ زیادہ گرم نہ زیادہ سرد‘ بلکہ معتدل‘ گویا اس میں (انوار کی کثرت کی وجہ سے) چاند کھلا ہوتا ہے۔ اس رات صبح تک ستارے شیاطین کو نہیں مارے جاتے‘ نیز اس کی علامتوں میں یہ بھی ہے کہ اس کے بعد کی صبح کو آفتاب بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے‘ ایسا بالکل ہموار ٹکیہ کی طرح ہوتا ہے جیسا کہ چودہویں رات کا چاند۔ اللہ جل شانہ نے اس دن آفتاب کے طلوع ہونے کے وقت شیطان کو اس کے ساتھ نکلنے سے روک دیا۔