تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اعتکاف کے محاسن اور معتکف کی مثالیں اعتکاف کی خوبیاں صاحب بحرالرائق فرماتے ہیں کہ اعتکاف میں بہت سی خوبیاں اور محاسن ہیں‘ ایک یہ کہ بندہ اپنے دل کو امور دنیا سے فارغ کرکے مولائے کریم کی طرف متوجہ کر لیتا ہے‘ دل میں اللہ تعالیٰ کی یاد ہوتی ہے‘ اسی کا دھیان ہوتا ہے گویا ایک طرح سے منقطع الی اللہ ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہونے والے گھر یعنی (مسجد) میں آ پڑتا ہے اور تَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلَا کی شان کا مشاہدہ کرتا ہے۔ مسجد تو مومن کے لئے ایک بڑے مضبوط قلعہ کی مانند ہے بالخصوص حالت اعتکاف میں‘ کیوں کہ شیطان کسی معصیت کی جگہ بہکا کر لے جانے سے قاصر رہتا ہے۔ معتکف کے ظاہر حال سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی محتاج بھکاری سب سے بڑے شہنشاہ کے دربار میں دست سوال دراز کئے چلا آیا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ مانگوں گا ملے گا۔ مغفرت چاہوں گا بخش دیا جائوں گا‘ ان کی ایک نگاہ کرم سے دنیا و آخرت کے سب کام بن جاتے ہیں۔ آمد بدر تو رو سیاہے نگذاشتہ در جہاں گناہے گر عفو کنی و گر بگیری کس نیست بجز درت پناہے گر نیست چوں من ذلیل و رسوا پس کیست کریم چو نتو شاہے جاں فدیہ آں نگاہ لطفت یکبار دگر بمن نگاہے ’’اے پروردگار ایک نہایت گناہ گار بندہ روسیاہ جس نے دنیا کا کوئی گناہ نہیں چھوڑا‘ آپ کے دروازہ پر آیا ہے‘ آپ معاف فرما دیں یا پکڑیں آپ کے در کے سوا اس کے لئے کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے اگرچہ میرے جیسا اور کوئی رسوا اور ذلیل نہیں ہے مگر اے کریموں کے کریم بادشاہ آپ جیسا کرم و رحم فرمانے والا بھی تو کوئی نہیں ہے‘ میری جان آپ کی ایک نگاہ لطف کے قربان جائے ایک مرتبہ پھر مجھ پر ایک نظر کرم فرما!!‘‘ علامہ ابن قیم کا قول ابن قیمؒ فرماتے ہیں اعتکاف کی روح دل کو اللہ پاک کی ذات کے ساتھ وابستہ کر لینا ہے معتکف کو چاہئے کہ اپنے تمام خیالات و توجہات کو یکسو کرکے اللہ جل شانہ کی طرف متوجہ ہو جائے‘ تاکہ اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں سما جائے‘ مخلوقات کی بجائے اللہ پاک کا انس پیدا ہو جائے جو قبر کی وحشت میں کام آئے کیونکہ وہاں رحمت خداوندی کے سوا کوئی مونس و غم خوار نہ ہو گا اگر دل اللہ جل شانہ کی محبت و شوق سے بھر جائے تو وہ وقت کس لذت کے ساتھ گزرے گا اس ایک ساعت کے مقابلہ میں ہفت اقلیم کی بادشاہت بھی کچھ نہ ہو گی ہر وقت دل یہ تمنا کرے گا ؎ دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن