تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
’’جس طرح روئے زمین پر غوث‘ قطب‘ ابدال اور اوتاد ہوتے ہیں اسی طرح خاص طور سے) مساجد میں بھی اوتاد ہوتے ہیں ان اوتاد مساجد کی شان ایسی ہے کہ اگر مسجد سے باہر چلے جائیں تو فرشتے ان کو ڈھونڈنے لگتے ہیں اگر وہ بیمار ہو جائیں تو فرشتے ان کی بیمار پرسی کرتے ہیں جب وہ اپنی دنیوی حاجات کے لئے جاتے ہیں تو (اللہ کے حکم سے) فرشتے ان کی امداد کرتے ہیں۔ [ترغیب ج۱ص ۴۸۱] تشریح اوتاد وتد کی جمع ہے جس کے معنی میخ کے ہوتے ہیں تو جیسے میخ اپنی جگہ گڑی رہتی ہے اسی طرح یہ بھی مسجد ہی میں ٹھہرا رہتا ہے۔ اوتاد اولیاء اللہ میں سے ایک خاص طبقہ کا نام ہے۔ سو دیکھئے معتکف بھی اوتاد مسجد کی طرح ہر وقت مسجد ہی میں رہتا ہے باہر نہیں جاتا (الاالضرورۃ) تو کیا عجب ہے کہ معتکف بھی اوتاد میں شمار ہو جائے۔ جو مانگنے کا طریقہ ہے اس طرح مانگو در کریم سے بندہ کو کیا نہیں ملتا مسجد میں بیٹھ رہنے سے یا دینی بھائی کی زیارت ہو گی یا حکمت کی بات کان میں پڑے گی ورنہ رحمت خداوندی کا منتظر تو ہوتا ہی ہے۔ مثال نمبر +معتکف کو جنتی ہونے کی امید زیادہ ہو جاتی ہے حدیث شریف میں ایسا مضمون آیا ہے کہ جو آدمی چند کام ایک دن میں پورے کر لے تو اس کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جنتی ہونے کی خوشخبری دیتے ہیں۔ جمعہ کی نماز ادا کرے۔ ! روزہ رکھے۔ " نماز جنازہ پڑھے۔ # نکاح میں شریک ہو جائے۔ $ بیمار کی بیمار پرسی کرے۔ اور پہلے گزر چکا ہے کہ معتکف جونیکیاں باہر جانے کی وجہ سے ادا نہ کر سکے برابر وہ نیکیاں اس کو حاصل ہوتی ہیں اور اس کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہیں‘ لہٰذا معتکف جمعہ ضرور پڑھتا ہے روزے سے بھی ہوتا ہے باقی تین کام میں جا نہیں سکتا‘ اس لئے وہ بھی اعتکاف کی وجہ سے اس کو مل جاتے ہیں اس طرح وہ جنت کی خوشخبری پانے والوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ مثال نمبر ,معتکف کے اللہ پاک ضامن ہو جاتے ہیں حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سردار انبیاء صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں مسجد ہر امتی کا گھر ہے اور اللہ تعالیٰ اس شخص کے ضامن ہو جاتے ہیں جس کے لئے مسجد گھر کی مثل ہو جائے (یعنی جیسے گھر میں جی لگتا ہے) اور مسجد کے آداب کا خیال رکھتے ہوئے فالتو اوقات مسجد ہی میں گزارتا ہے اور ضمانت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی روح کو مصفی فرما کر رحمت فرمائیں گے اور پل صراط سے اللہ کی رضا کی جگہ یعنی جنت میں پہنچاویں گے۔ [الترغیب ص ۵۸۱ ج۱]