تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
امام ابو حنیفہؒ ہر سورۃ پر بسم اللہ پڑھنے کو ضروری نہیں کہتے‘ یہ نہیں کہ جائز نہیں کہتے۔ درمختار یا ردالمحتار میں ہر سورۃ پر بسم اللہ پڑھنے کو حسن کہا ہے (یعنی پڑھنا بہتر ہے پڑھنا چاہئے) اب رہا ہر جگہ پکار کر (یعنی زور سے) پڑھنا یہ بلاشبہ (مسلک) احناف کے خلاف ہے اور امام عاصم بھی جہر کو ضروری نہیں کہتے صرف بسم اللہ پڑھنے کو ضروری کہتے ہیں۔ [امداد الفتاویٰ] کتب مذہب میں تصریح ہے کہ بسم اللہ مطلق قرآن کا جز ہے کسی خاص سورۃ یاہر سورۃ کاجز نہیں پس اس کا مقتضی یہ ہے کہ ایک جگہ ضرور جہر ہو ورنہ سامعین کا قرآن پورا نہ ہو گا قاری کا تو اخفاء (یعنی آہستہ پڑھنے) میں ہو جائے گا کیوں کہ بعض اجزاء کاجہر اور بعض کا اخفاء جائز ہے فن قرأت سے تو اس مسئلہ کا صرف اس قدر تعلق ہے آگے فقہ سے تعلق ہے اور اس میں بسم اللہ کا اخفاء ہے (یعنی آہستہ پڑھنے کا حکم ہے) [امداد الفتاویٰ] تراویح میں کسی ایک سورۃ کے شروع میں بسم اللہ زور سے پڑھنا چاہئے :تراویح میں کسی سورۃ کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز سے پڑھنا چاہئے اس لئے کہ بسم اللہ بھی قرآن مجید کی ایک آیت ہے اگرچہ کسی سورت کاجزء نہیں۔ پس اگر بسم اللہ بالکل نہ پڑھی جائے گی تو قرآن مجید کے پورا ہونے میں ایک آیت کی کمی رہ جائے گی اور اگر آہستہ آواز سے پڑھی جائے گی تو (امام کا تو قرآن مجید پورا ہو جائے گا) مقتدیوں کا قرآن مجید پورانہ ہو گا۔ [بہشتی گوہر] ہر سورۃ میں بسم اللہ زور سے پڑھنے کا حکم بعض مقامات میں ہر سورۃ کے شروع میں بسم اللہ جہر سے پڑھتے ہیں‘ اور اس سلسلہ میں انہوں نے رسالے بھی لکھے ہیں ان کے مضمون کاحاصل یہ ہے کہ قراء سبعہ میں دو جماعتیں ہیں۔ ایک وہ ہے جو دو سورتوں کے درمیان بسم اللہ سے فصل کرتے ہیں یعنی ایک سورۃ کے ختم ہونے اور دوسری سورۃ کے شروع ہونے کے درمیان بسم اللہ پڑھتے ہیں۔ اور دوسرے وہ ہیں جو فصل نہیں کرتے بسم اللہ پڑھتے ہی نہیں بلکہ سورتوں کو ملاتے ہوئے چلے جاتے ہیں اور امام عاصمؒ جن کی قرأت ہندوستان میں ہے بسم اللہ پڑھنے والوں میں سے ہیں اس لیے اگر کسی نے بسم اللہ نہ پڑھی تو اس نے امام عاصم کی روایت پر پورا قرآن نہیں پڑھا۔ پس جس طرح قرآن جہر سے پڑھا جاتا ہے اسی طرح بسم اللہ بھی جہر سے پڑھنا چاہئے (یہ حاصل ہے ان حضرات کے استدلال کا) مگر اس استدلال میں کلام ہے وہ یہ کہ اس سے اتنی بات تو ثابت ہوئی کہ امام عاصمؒ کی رعایت کے موافق بسم اللہ پڑھنی چاہئے۔اب رہی یہ بات کہ جہر کے ساتھ پڑھنی چاہئے یا نہیں تو یہ مسئلہ قرأت کا نہیں فقہ کا ہے فقہ میں یہ ہے کہ بسم اللہ آہستہ پڑھنی چاہئے پس اس مسئلہ کا تعلق دو فن سے ہے ایک قرأۃ دوسرے فقہ۔ بسم اللہ آہستہ پڑھنے میں دونوں پر عمل ہو جاتا ہے اور جہر پڑھنے سے خفیت چھوٹتی ہے امام عاصمؒ قرأت میں امام ابو حنیفہ کے استاذ ہیں اور فقہ میں امام صاحب کے شاگرد ہیں۔ [حسن العزیز] بسم اللہ جہر کے ساتھ کس سورۃ میں پڑھنا چاہئے