تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لائے اور صحابہ سے فرمایا کہ مجھے تم سب کا آنا معلوم تھا مگر میں اس لیے نہیں آیا کہ ایسا نہ ہو کہ تم پر یہ نماز فرض ہو جائے اور (فرض کی طرح اس کی ادائیگی) نہ ہو سکے تو تم (فرض چھوڑنے کے) گنہگار ہو‘ اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ چلو یہ تو ایک گنجائش کی بات معلوم ہوئی کہ فرض چھوڑنے کے برابر نہ ہو گا شاید کوئی یہ کہنے لگے کہ خیر زیادہ گناہ تو نہیں ہے تھوڑا گناہ ہے اگر چھوڑ دیں گے تو کوئی بڑا گناہ نہ ہو گا۔ جو یہ کہے پہلے میری اس رائے کو قبول کرے تب یہ سمجھا جائے گا کہ یہ تھوڑی سی چیز کی وقعت نہیں کرتا اور اسے مہمل سمجھتا ہے۔ تب میں بھی ایسے شخص کے لیے فتویٰ دے دوں گا کہ اسے چھوڑ دینا جائز ہے۔ وہ رائے یہ ہے کہ ایک چھوٹی سی چنگاری لے کر ایک چھپر پر یا اپنے صندوق کے کپڑوں میں رکھ دے اور اگر کوئی اس کو ٹوکے تو وہ یہ کہہ دے کہ یہ تو چھوٹی سی چنگاری ہے بڑا انگارہ تو نہیں ہے اور اگر یہ چھوٹی سی چنگاری رکھنے سے بچے کہ چھوٹی بڑی سب یکساں ہیں تو اس سے کہاجائے گا کہ حضور والا یہاں بھی دونوںکا اثر یکساں ہے اور وہ کیا ہے‘ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی (یعنی تراویح گو فرض نہیں سنت موکدہ ہے اس کے چھوڑنے سے اللہ تعالیٰ ناخوش ہوگا)۔[روح القیام] تراویح کے سنت موکدہ ہونے کی دلیل تراویح کا پڑھنا نہایت ضروری ہے کیوں کہ روایات سے اس کا مرغوب فیہ ہونا‘ مامور بہ ہونا‘ اور معمول بہ ہونا‘ مطلوب و مقصود ہونا سب ثابت ہے۔(یعنی احادیث سے ثابت ہے کہ تراویح کی نماز حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو مرغوب تھی‘ آپ کا معمول بھی تھا اور امت کو آپ نے اس کا حکم بھی دیا اور تراویح ثابت ہے) آپ کے عمل سے بھی‘ اس کے بعد صحابہ کی پابندی سے بھی اس لیے محققین نے اسے سنت موکدہ لکھا ہے گو آپ سے یہ ثابت ہے کہ تین شب کے بعد آپ تراویح کے لیے تشریف نہیں لائے اور یہ فرمایا کہ مجھے اس کے تم پر فرض ہو جانے کا اندیشہ تھا‘ اس سے معلوم ہواکہ اگر فرض کا اندیشہ نہ ہوتا تو آپ کا تشریف لانے کا ارادہ تھا اور پختہ ارادہ خود عمل کے قائم مقام ہوتا ہے پس جب آپ نے ارادہ فرما لیا تو اس سے بھی تراویح کا موکدہ ہونا ثابت ہو جائے گا جیسا کہ فعل سے ثابت ہوتا ہے اس کے سنت موکدہ ہونے کی ایک یہ تقریر ہے جو اپنے عنوان کے اعتبار سے نئی ہے۔ [روح القیام] بیس رکعت تراویح کا ثبوت حدیث شریف میں ہے: ((اِنَّ اللّٰہَ فَرَضَ لَکُمْ صِیَامَہٗ وَسَنَنْتُ لَکُمْ قِیَامَہٗ)) [موطا امام مالک] ’’بے شک اللہ نے تم پر رمضان کا روزہ فرض کیا ہے اور میں نے اس کی راتوں کا جاگنا یعنی تراویح پڑھنا مسنون کیا۔‘‘ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ حدیث میں قیامہ سے مراد تراویح ہے۔ رہا بیس کا عدد‘ سو اس وقت اس کے اثبات سے ہم کو بحث نہیں‘ عمل کے لیے ہم کو اتنا کافی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح اور تین وتر جماعت کے ساتھ پڑھے جاتے تھے یہ روایت موطا امام مالک میں گو منقطع ہے مگر عملاً متواتر ہے امت کے عمل نے اس کو متواتر کر دیا ہے بس عمل کے لیے اتنا کافی