تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ایک دو ہفتہ بہت تھوڑی مدت ہے جس کا اثر نہیں ہو سکتا اور دو مہینہ تک روزہ رکھنے سے طبیعت بہت کمزور ہو جاتی ہے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔ چونکہ روزہ کے قانون کو عام ہونا چاہئے اس لیے کہ اس میں سب کی اصلاح تہذیب مقصود ہے لہٰذا ہر شخص اس بات کا مجاز نہ ہو کہ جس مہینے میں آسانی سمجھے روزہ رکھ لے اس لیے کہ اس میں باب معذرت کے وسیع ہو جانے کا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے انسداد کا اور اسلام کی ایک عظیم الشان عبادت میں سستی ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ مسلمانوں کے ایک بڑے گروہ کا ایک وقت میں کسی ایک چیز کی پابندی کرنے سے ایک دوسرے کو اس کام میں مدد ملے گی آسانی ہو گی اور کام کرنے کی ہمت پیدا ہو گی۔ ایک کام کو ایک ہی وقت میں ساری دنیا کے مسلمانوں کا بالاتفاق مل کر کرنا ان کیلئے باعث نزول رحمت الٰہی اور ان میں صورت اتفاق و اتحاد کے لیے مفید ہے یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے خدا تعالیٰ نے روزوں کا ایک ہی مہینہ معین و مشخص کیا ہے پس جو شخص اس نظام الٰہی کو بغیر عذر کے توڑتا ہے اس پر بجائے رحمت کے لعنت کا نزول ہوتا ہے۔ یکم شوال کو روزہ حرام ہونے کی وجہ سوال: یکم شوال کا روزہ رکھنا حرام اور رمضان کا اخیری روزہ فرض ہونے کا کیا راز ہے باوجود کہ دونوں یکساں ہیں؟ جواب: یہ دونوں یوم مرتبہ و درجہ میں برابر نہیں ہیں۔ اگرچہ طلوع و غروب آفتاب میں یکساں ہیں مگر حکم الٰہی میں یکساں نہیں ہیں کیونکہ ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس کے روزے خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کئے ہیں اور یکم شوال لوگوں کی عید و سرور کا دن ہے جس میں خدا تعالیٰ نے لوگوں پرکھانا پینا بطور شکر گزاری بندگان خدا مباح کیا ہے اس لیے اس دن سب لوگ خدا تعالیٰ کے مہمان ہوتے ہیں لہٰذا خدا تعالیٰ کے مہمان کو واجب ہے کہ اس کی دعوت و ضیافت کو قبول کرے یہ عمل خدا تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے کہ ان دن کوئی شخص روزہ رکھ کر خدا تعالیٰ کی دعوت و ضیافت کو رد کرے مہمانی کے لوازم و آداب میں سے یہ امر بھی ہے کہ روزہ رکھے تو صاحب خانہ یعنی میزبان کے اذن سے رکھے پس جبکہ یکم شوال کو اہل اسلام خدا تعالیٰ کے خاص مہمان ہوتے ہیں تو پھر اس دن کسی کو روزہ رکھنا کیسے جائز ہو سکتا ہے یہ امر شریعت اسلامیہ کی خوبیوں میںسے ہے کہ خدا نے رمضان کا آخری روزہ رکھنا فرض کیا کیونکہ یہ روزہ خدا تعالیٰ کے اتمام نعمت و خاتمہ عمل کے لیے ہے اور شوال کی یکم کو روزہ رکھنا حرام ہوا کیونکہ وہ ایسا دن ہے کہ اس میں تمام مسلمان اپنے پروردگار کے مہمان ہوتے ہیں یوں تو تمام مخلوق خدا تعالیٰ کی دائمی مہمان ہے۔ مگر یہ دن ان کی ایک مخصوص مہمانی و ضیافت کا ہے جس کو رد کرنا گناہ عظیم ہے۔ سال میں چھتیس روزے رکھنے سے صائم الدھر بننے کی حکمت نبی علیہ السلام فرماتے ہیں: ((من صام صیام رمضان فاتبعہ ستامن شوال کان کصیام الدھر)) ’’جو شخص رمضان کے روزے رکھ کر اس کے بعد شوال کے چھ روزے اور رکھ لیا کرے تو ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہے۔‘‘