تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے۔ دیکھئے اگر کوئی پنساری کے پاس دوا لینے جائیں تو اس سے یہ نہیں پوچھتے کہ یہ (دوا) کہاں سے آئی اور اس کا کیاثبوت ہے کہ یہ وہی دوا ہے جو میں لیناچاہتا ہوں۔ بلکہ اگر شبہ ہوتا ہے تو ایک دو جاننے والوں کو دکھلا کر اطمینان کر لیا جاتا ہے۔ اب اگر کوئی پنساری سے یہ کہے کہ مجھے تو اطمینان اس وقت ہو گا جب تم بائع (بیچنے والے) کے دستخط دکھلا دو گے کہ تم نے اس سے یہ دوا خریدی ہے تو لوگ یہ کہیں گے کہ اس کو دوا کی ضرورت ہی نہیں اور پنساری بھی صاف کہہ دے گا کہ مجھے دستخط دکھلانے کی ضرورت نہیں‘ لینا ہو تو لو‘ نہ لینا ہو تو نہ لو۔ اسی طرح محققین سلف کا طرز ہے کہ وہ مدعی سے بحث نہیں کرتے بس مسئلہ بتا دیا‘ اور اگر کسی نے اس میں حجتیں نکالیں تو صاف کہہ دیا کہ کسی دوسرے سے تحقیق کر لو جس پر تم کو اعتماد ہو‘ ہمیں بحث کی فرصت نہیں۔ [تقلیل المنام] عوام کو اگر بتا بھی دیا جائے کہ حدیث میں یہ ہے تو انکو طریق استنباط کا علم کس طرح ہو گا اس میں پھر وہ فقہاء کے محتاج ہوں گے تو پہلے ہی سے فقہاء کے بیان پر کیوں اعتماد نہیں کرتے۔ [تقلیل المنام] عمل کے لیے اتنا ثبوت کافی ہے عمل کے لیے تو تراویح کا اتنا ثبوت کافی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے قول سے اس کو مسنون فرمایا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں صحابہ عملاً تراویح کی بیس رکعتیں پڑھتے تھے‘ عوام کے لیے اتنا کافی ہے‘ اس سے زیادہ تحقیق علماء کا منصب ہے اس سے اس وقت بحث نہیں۔ [تقلیل المنام] تراویح بیس ہی رکعت کیوں پڑھنا چاہئے دہلی سے ایک نئے مجتہد صاحب آٹھ رکعت تراویح سن کر مولانا شیخ محمد صاحب کے پاس آئے تھے اور انہیں اس میں شک تھا کہ تراویح آٹھ ہیں یا بیس۔ یہ نئے مجتہد اپنے کو عامل بالحدیث کہتے ہیں۔ کیوں صاحب! حدیث میں بیس بھی تو آئی ہیں ان پر کیوں نہیں عمل کیا‘ تاکہ اس کے ضمن میں آٹھ پر بھی عمل ہو جاتا (یعنی دونوں حدیثوں پر عمل ہو جاتا بیس والی حدیث پر بھی اور آٹھ والی پر بھی)۔ اصل بات یہ ہے کہ نفس کو سہولت تو آٹھ ہی رکعت میں ہے تو بیس کیوں پڑھیں۔ بہرحال مولانا شیخ محمد صاحب سے انہوں نے سوال کیا۔ مولانا نے فرمایا کہ اگر محکمہ مال سے یہ اطلاع آئے کہ مال گزاری داخل کرو (یا مثلاً جرمانہ یا فیس وغیرہ کا مطالبہ کیا گیا) اور تم کو معلوم نہ ہو کہ کتنی ہے تم نے ایک نمبردار سے پوچھا کہ میرے ذمہ کتنی مال گزاری ہے اس نے کہا کہ آٹھ روپے تم نے دوسرے نمبردار سے پوچھا اس نے کہا بارہ روپے اس سے تردد بڑھا تم نے تیسرے سے پوچھا اس نے کہا بیس روپے۔ تو اب بتاؤ تمہیں کچہری کتنی رقم لے کر جانا چاہئے انہوں نے کہا کہ صاحب بیس روپے لے کرجاناچاہئے اگر اتنی ہی ہوئی (یعنی بیس) تو کسی سے مانگنا نہ پڑے گا اور اگر کم ہوئی تو رقم بچ رہے گی (میرے کام آئے گی) اور اگر میں کم لے کر گیا اور وہاں ہوئی زیادہ تو کس سے مانگتا پھروں گا۔ مولانا نے فرمایا بس خوب سمجھ لو۔ اگر وہاں بیس رکعت طلب کی گئیں اور ہیں تمہارے پاس آٹھ تو کہاں سے لا کر دو گے اور بیس ہیں اور طلب کمی کی ہے تو بچ رہیں گی اور تمہارے کام آئیں گی۔ کہنے لگے ٹھیک ہے سمجھ میں آ گیا۔ اب