تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اللہ کی کیا شان ہوتی ہے؟ وہ صاحب خوارق تھے انہوں نے فرمایا کہ اگر وہ یہ چاہیں کہ گھر میں جتنی چیزیں ہوں وہ باہر آنا شروع ہو جائیں تو ان کے چاہنے پر یہ ہو سکتا ہے ابھی صرف اتنا ہی کہا تھا کہ اندر کی چیزیں باہر آنے لگیں پلنگ باہر آ رہا ہے کرسی باہر آ رہی ہے گویا سب اندر کی چیزیں باہر آنے لگیں تو انہوں نے فرمایا کہ میرا منشا یہ نہیں کہ تم باہر آئو۔ دعا کے لئے بزرگی شرط نہیں یہ بڑے حضرات تھے کہ جن کے فرمانے پر ان چیزوں کا ظہور ہوتا تھا مگر خدائے واحد کے دربار میں مانگنے کے لئے اور ہاتھ پھیلانے کے لئے بزرگی شرط نہیں ہے ساری انسانیت اور خصوصاً جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کے لئے تو بس یہ ہے کہ وہ طے کر لیں کہ ہمیں گڑ گڑا کر اپنے اور اپنے قلب کو جھکا کر یقین کے ساتھ خدا سے مانگنا ہے اور کثرت سے مانگنا ہے۔ خدا سے مانگنے والے ہم نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو روزانہ کم از کم آٹھ آٹھ گھنٹے دعا کا اہتمام کرتے ہیں بعض ایسے بھی ہیں جو چھ گھنٹے دعا کا اہتمام کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کا تذکرہ بھی سنا ہے کہ جنہوں نے صرف ایک دعا کو ایک ایک گھنٹہ تک مانگا حضرت اقدس تھانویؒ فرماتے تھے ہمارے یہاں ایک شخص بڑے بھولے بھالے تھے جب وہ دعا مانگتے تو ایک ایک جملہ کو کم از کم ایک گھنٹہ تک کہتے تھے اگر یہ کہنا ہوتا کہ اے اللہ کشادہ حلال روزی عطا فرما تو اس جملہ کو ایک گھنٹہ تک بولتے تھے‘ آپ اندازہ لگایئے اللہ پر اس درجہ یقین کے ساتھ اور کثرت کے ساتھ مانگنے کا جو کچھ اثر ہوتا ہو گا وہ ظاہر ہے اور بھولے ایسے تھے کہ ایک مرتبہ جمعہ کے دن ایک جنازہ آیا فرمانے لگے جتنے حاضرین ہیں اللہ پاک سب کو یہ دن نصیب فرمائیں‘ ان کا منشا یہ تھا کہ جمعہ کے دن سب کی وفات ہو لیکن وہ اس انداز سے کہہ رہے تھے کہ گویا یہ چاہتے ہیں کہ جتنے ہیں سب کے سب رخصت ہو جائیں اور چلے جائیں تو بھولے تھے مگر یہ کہ اللہ سے ان کا ایک تعلق تھا اور واقعی ہزاروں چالاکیاں اور ہزاروں ہوشیاریاں اس بھولے پن پر قربان ہوں جس میں آدمی خدا سے وابستہ ہو جائے۔ دعا میں دل کیسے لگے تو ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم افطار سے پہلے‘ تہجد کے وقت اگر تہجد کی توفیق ہو جائے‘ فجر کے بعد یا جس وقت بھی سہولت ہو کچھ وقت نکال کر اپنے قلب کو خدا کی طرف متوجہ کرکے دن میں دو چار دفعہ اللہ تعالیٰ سے جم کر مانگنے کی عادت ڈالیں اور اپنے گھر میں بھی یہ نظام بنائیں اپنے بچوں کو بیوی کو اپنے ملنے والوں کو قرابت داروں اور عزیزوں کو کہیں کہ ہم اللہ جل شانہ سے ویسا نہ مانگیں جیسے رسمی طور پر آدمی ہاتھ اٹھاتا ہے اور پھر ہاتھ پھیر لیتا ہے آپ نے نہیں دیکھا کہ جب آدمی کسی مقام پر ٹیلی فون کرتا ہے تو اگر لائن مصروف (B علیہ السلام S رضی اللہ عنھم ) ہے اور شور ہو رہا ہے تو آدمی فون اٹھا کر رکھ دیتا ہے اگر لائن صاف (CL صلی اللہ علیہ و سلم رحمہ اللہ رضی اللہ عنھا ) ہو آواز صاف آ رہی ہو تو سامنے والا اس کی بات سنتا ہے ہم لوگوں کا حال بھی ایسا ہی ہے کہ ہم جس وقت دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو کبھی بیوی