تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
{تَنَزَّلُ الْمَلٰئِکَۃُ} ’’اس رات میں فرشتے اترتے ہیں‘‘ علامہ رازیؒ لکھتے ہیں کہ ملائکہ نے جب ابتداء میں انسان کو دیکھا تھا تو اس سے نفرت ظاہر کی تھی اور بارگاہ الٰہی میں عرض کیا تھا کہ ایسی چیز کو آپ پیدا فرماتے ہیں جو دنیا میں فساد کرے اور خون بہائے۔ اور آج جب کہ توفیق الٰہی سے تو (انسان) شب قدر میں معرفت الٰہی اور اطاعت ربانی میں مشغول ہے تو فرشتے اپنے فقرہ کی معذرت کرنے کے لئے اترتے ہیں۔ {وَالرُّوْحُ فِیْھَا} ’’اس رات میں روح القدس یعنی حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی نازل ہوتے ہیں۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد منقول ہے کہ شب قدر میں حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کے ایک گروہ کے ساتھ اترتے ہیں اور جس شخص کو ذکر وغیرہ میں مشغول دیکھتے ہیں‘ اس کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں بْاِذْنِ رَبّْھِمْ مِنْ کُلّْ اَمْرٍ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر زمین کی طرف اترتے ہیں۔ مظاہر حق میں لکھا ہے کہ اسی رات میں ملائکہ کی پیدائش ہوئی اور اسی رات میں حضرت آدم علیہ السلام کا مادہ جمع ہونا شروع ہوا‘ اسی رات میں جنت میں درخت لگائے گئے اور دعاء وغیرہ کا قبول ہونا تو بکثرت روایات میں آیا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ اسی رات حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے اور اسی رات بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہوئی۔ سَلَامٌ وہ رات سراپا سلام ہے‘ یعنی تمام رات فرشتوں کی طرف سے مومنین پر سلام ہوتا رہتا ہے کہ ایک فرشتوں کی فوج (ٹکڑی) آتی ہے دوسری جاتی ہے ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرْ وہ رات (ان ہی برکات کے ساتھ) تمام رات طلوع فجر تک رہتی ہے‘ یہ نہیں کہ رات کے کسی خاص حصہ میں یہ برکت ہو اور کسی میں نہ ہو‘ بلکہ صبح ہونے تک ان برکات کا ظہور رہتا ہے۔ [فضائل رمضان المبارک ص ۳۷ و معارف القرآن ص ۷۹۱ جلد ۸] ایک سوال کا جواب روایات میں شب قدر کو ایک ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا ہے‘ اور ظاہر ہے کہ ان ایک ہزار مہینوں کے اندر بھی ہر سال ایک شب قدر آئے گی تو حساب کس طرح بنے گا؟ ائمہ تفسیر نے فرمایا ہے کہ یہاں ایک ہزار مہینوں سے مراد وہ مہینے ہیں جن میں شب قدر شامل نہ ہو‘ اس لئے اب کوئی اشکال نہیں۔ [معارف القرآن ص ۷۹۴ ج۸] یہ جو فرمایا گیا ہے کہ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہزار مہینوں تک عبادت کرنے کا جتنا ثواب ہے اس سے زیادہ شب قدر کی عبادت کا ہے اور کتنا زیادہ ہے؟ یہ خدا ہی کو معلوم ہے‘ جسے اللہ تعالیٰ زیادہ فرمائے اس کی زیادتی کا کیا ٹھکانا۔ دنیا ہی کا دستور ہے کہ بڑے لوگ تھوڑی بہت بڑائی کو کوئی بڑائی نہیں سمجھا کرتے‘ جس کی نظر اونچی ہوتی ہے وہ بہت اونچی چیز ہی کو اونچا مانتا ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ اس زمانے میں عربوں کے یہاں ہزار سے آگے گنتی ہی نہ تھی‘ جیسا کہ آج سے ہزار سال پہلے تمام دنیا میں سو سینکڑے کی بہت ہی زیادہ اہمیت تھی۔ اور آج؟