میں داخل ہوگی ،تو تین طلاق واقع ہوں گی، برخلاف عطف بالواو کے امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ، اس لئے کہ جب لفظ بل اول کو باطل کرنے کے لئے ہے اور ثانی کو اس کے قائم مقام کرنے کے لئے ہے ،تو لفظ بل کا تقاضا ثانی کو بلاواسطہ شرط کے ساتھ متصل کرنے کا ہوگا، لیکن اول کو باطل کرنے کی شرط کے ساتھ، حالانکہ یہ اس کے بس میں نہیں ہے، اور اس کے بس میں ثانی کو شرط کے ساتھ الگ سے بیان کرنا ہے، تاکہ ثانی شرط کے ساتھ بلاواسطہ متصل ہوجائے ، پس یہ کلام یہ دو یمینوں کے ساتھ حلف کے درجہ میں ہوگا، پس جو اس کے بس میں ہے وہ ثابت ہوجائے گا۔
------------------------------
تشریح:-حروف عطف میں چوتھا حرف بل ہے، جس کی وضع اس لئے ہوئی ہے کہ وہ اپنے مابعد کو ثابت کرتا ہے، اور اپنے ماقبل سے اعراض کرتا ہے، جیسے ’’جاء نی زید بل عمرو‘‘ تو متکلم بل کے ذریعہ اس کے مابعد یعنی عمرو کے آنے کو ثابت کررہا ہے اور ماقبل یعنی زید کے لئے مجیئت کو ثابت کرنے سے اعراض کررہا ہے، تو زید کا آنا نہ آنا دونوں محتمل ہے، گویا زید مسکوت عنہ کے درجہ میں ہے،___ لیکن اگر کلمہ لا بڑھا کر کہتا ہے ’’جاء نی زید لابل عمرو‘‘ تو زید کے آنے کی نفی ہوجائے گی، اب یہ مسکوت عنہ کے درجہ میں نہ ہوگا۔
اب جہاں بل کا ماقبل ایسا ہو کہ اس سے اعراض کرنا آدمی کے بس میں ہو ،جیسے مثالِ مذکور میں متکلم نے زید کے آنے سے اعراض کیا، تو وہاں بل ماقبل سے اعراض کے لئے ہوگا، اور جہاں ماقبل سے اعراض ممکن نہ ہو، تو وہاں ماقبل اور مابعد دونوں کے لئے حکم ثابت ہوگا، ماقبل سے اعراض خبر میں ممکن ہے، جیسے مثال گذری، اور انشاء میں ممکن نہیں ہے، لہٰذا انشاء میں بل کے ماقبل اور مابعد دونوں کے لئے حکم ثابت ہوگا۔
اس کی مثال مصنفؒ دے رہے ہیں کہ جیسے کسی نے اپنی غیر مدخول بہا بیوی سے کہا ’’ان دخلت الدار فانت طالق واحدۃ‘‘لابل ثنیتن‘‘یہ کلام انشاء ہے، یہاں بل کے ماقبل سے یعنی طلاق سے اعراض ممکن نہیں ہے کیونکہ طلاق دینے کے بعد اس سے اعراض کرنا آدمی کے بس میں نہیں ہے، لہٰذا وجود ِشرط کے وقت پہلی طلاق بھی واقع ہوجائے گی اور بل کے مابعد کی بھی واقع ہوجائیں گی ، تینوں ایک ساتھ واقع ہوں گی،___ اس کے برخلاف اگر حرفِ واؤ سے یہ کلام کیا ہے ’’ان دخلت الدار فانت طالق واحدۃو ثنتین‘‘ تو امام صاحب کے نزدیک صرف ایک طلاق واقع ہوگی، کیونکہ اس مثال میں معطوف علیہ بلاواسطہ مشرط پر معلق ہے، اور معطوف یعنی ’’وثنتین‘‘ معطوف علیہ کے واسطے سے شرط پر معلق ہے، اور واسطہ ذی واسطہ سے پہلے ہوتا ہے، لہٰذا جب شرط پائی جائے گی تو معطوف علیہ یعنی پہلی طلاق جو واسطہ ہے پہلے واقع ہوگی اورمعطوف یعنی دوسری دو طلاقیں جو ذی واسطہ ہے، بعد میں واقع ہوں گی، اس طرح تینوں طلاق واقع ہوں گی، کیونکہ واؤ جمع کے لئے آتا ہے، لیکن چونکہ پہلی طلاق واقع ہونے کے بعد عورت غیر مدخول بہا ہونے کی وجہ سے باقی طلاق کا محل نہ رہے گی تو باقی لغو ہوجائیں گی۔