ذِمَّۃٌمُطْلَقَۃٌ حَتّٰی صَلَحَ لِیَجِبَ لَہٗ الْحَقُّ وَلَمْ یَجِبْ عَلَیْہِ وَاِذَا اِنْفَصَلَ وَظَھَرَتْ لَہٗ ذِمَّۃٌ مُطْلَقَۃٌ کَانَ اَھْلًا لِلْوُجُوْبِ لَہٗ وَعَلَیْہِ غَیْرَ اَنَّ الْوُجُوْبَ غَیْرُ مَقْصُوْدٍ بِنَفْسِہٖ فَجَازَ اَنْ یَبْطُلَ لِعَدَمِ حُکْمِہٖ وَغَرْضِہٖ کَمَا یَنْعَدِمُ لِعَدَمِ مَحَلِّہٖ وَلِھٰذَالَمْ یَجِبْ عَلَی الْکَافِرِ شَیْءٌ مَنْ الشَّرَائِعِ الَّتِیْ ھِیَ الطَّاعَاتُ لَمِالَمْ یَکُنْ اَھْلًالِثَوَابِ الْاٰخِرَۃِ وَلَزِمَہٗ الْاِیْمَانُ لِمَا کَانَ اَھْلًا لِاَدَائِہٖ وَوَجُوْبِ حُکْمِہٖ وَلَمْ یَجِبْ عَلَی الصَّبِیِّ الْاِیْمَانُ قَبْلَ اَنْ یَّعْقِلَ لِعَدَمِ اَھْلِیِّۃِالْاَدَاءِ وَاِذَا عَقَلَ وَاحْتَمَلَ الْاَدَاءَ قُلْنَا بِوُجُوْبِ اَصْلِ الْاِیْمَانِ عَلَیْہِ دُوْنَ اَدَائِہٖ حَتّٰی صَحَّ الْاَدَاءُ مِنْ غَیْرِ تَکْلِیْفٍ وَکَانَ فَرْضَا کَالْمُسَافِرِ یُؤَ دِّی الْجُمُعَۃَ۔
ترجمہ:-یہ فصل اہلیت کے بیان میں ہے ،اہلیت کی دوقسمیں ہیں،اہلیتِ وجوب اور اہلیت ِادا،بہرحال اہلیت ِ وجوب تو یہ مبنی ہے ذمہ کے قیام پر ،اس لئے کہ آدمی پیدا ہوتا ہے اور اس کے لئے ذمۂ صالحہ ہے اس کے لئے وجوب کے واسطے اور اس پر وجوب کے واسطے فقہاء کے اجماع سے،بناء کرتے ہوئے عہدِ ماضی (عہدالست) پر اللہ تعالیٰ نے فرمایاــ’’واذا اخذربک من بنی آدم من ظھورھم ذریتھم الایۃ‘‘اور (ماں سے )جدا ہونے سے پہلے وہ من وجہ ٍجز ہے پس اس کے لئے ذمۂ کاملہ نہ ہوگا ،یہانتک کہ وہ صلاحیت رکھتا ہے کہ حق اس کے لئے واجب ہواور اس پر واجب نہ ہو،اور جب وہ (ماں سے)جداہوگیا اور اس کے لئے ذمۂ کاملہ ظاہر ہوگیا تو وہ اپنے لئے اور اپنے اوپر وجوب کا اہل ہوگیا ، مگر یہ کہ وجوب بذات خود مقصود نہیں ہے ،پس جائز ہے کہ وجوب کا حکم (اداء)اور اس کی غرض نہ ہونے کی وجہ سے وجوب باطل ہوجائے ،جیسا کہ وجوب معدوم ہوجاتا ہے وجوب کا محل نہ ہونے کی وجہ سے ۔
اور اسی وجہ سے کافر پر ان شرائع میں سے کوئی چیز واجب نہیں ہے،جوکہ طاعات ہیں،اس وجہ سے کہ وہ ثوابِ آخرت کا اہل نہیں ہے ،اور اس کوایمان لازم ہوگا اس وجہ سے کہ وہ اداء ایمان کا اہل ہے اور ایمان کے حکم کے ثبوت کا اہل ہے (یعنی ثواب آخرت کا )اور بچہ پر ایمان واجب نہیں اس کے عاقل ہونے سے پہلے اداء کی اہلیت نہ ہونے کی وجہ سے، اور جب وہ عاقل ہوگیا اور اداء ایمان کا متحمل ہوگیا تو ہم اس کے اوپر اصل ایمان کے وجوب کے قائل ہوگئے نہ کہ وجوبِ اداء کے،یہاں تک کہ بغیر تکلیف کے ادائِ ایمان صحیح ہے،اور ادائِ ایمان فرض ہوگا جیسے مسافر جمعہ اداکرے ۔
------------------------------
تشریح :-اہلیت رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی فعل کوکرنے کی صلاحیت رکھے ،اہلیت کی دوقسمیں ہیں