اِمْتَنَعََ حُکْمُ ھٰذَا التَّعْلِیْلِ ثَمَّہٗ لِمَانِعٍ وَھُوَالْاَثَرُ وَقُلْنَا نَحْنُ اِنْعَدَمَ الْحُکْمُ لِعَدَمِ ھٰذَہٖ الْعِلَّۃِ لِاَنَّ فِعْلَ النَّاسِیْ مَنْسُوْبٌ اِلٰی صَاحِبِ الشَّرْعِ فَسَقَطَ عَنْہُ مَعْنَی الْجِنَایَۃِ وَصَارَ الْفِعْلُ عَفْوًا فَبَقِیَ الصَّوْمُ لِبَقَاءِ رُکْنِہٖ لَا لِمَانِعٍ مَعَ فَوَاتِ رُکْنِہٖ فَالَّذِیْ جُعِلَ عِنْدَھُمْ دَلِیْلُ الْخُصُوْصِ جَعَلْنَاہٗ دَلِیْلَ الْعَدَمِ وَھٰذَا اَصْلُ ھٰذَا الْفَصْلِ فَا حْفَظْہٗ وَاَحْکِمْہٗ فَفِیْہِ فِقْہٌ کَثِیْرٌوَ مَخْلَصٌ کَبِیْرٌ
ترجمہ:-پھر استحسان تخصیص عِلَل کے قبیل سے نہیں ہے ،اس لئے کہ وصف علت نہیں قرار دیا گیا ہے نص اور اجماع اور ضرورت کے مقابلہ میں ،اس لئے کہ ضرورت میں اجماع ہے،اور اجماع کتاب و سنت کے مثل ہے ،اور اسی طرح جب قیاسِ جلی کو استحسان عارض ہوجائے تو استحسان عدم ِقیاس کو واجب کرے گا ،پس حکم کا عدم، علت کے عدم کی وجہ سے ہوگانہ کہ علت کے قائم ہونے کے باوجود کسی مانع کی وجہ سے ،اور اسی طرح کہتے ہیںہم تمام مؤثر علتوں میں ،اور اس کا بیان ہمارے اس قول میں ہے جوروزہ دار کے بارے میں ہے،جب اس کے حلق میں پانی ڈا ل دیا گیا کہ اس کا روزہ فاسد ہوجائے گا رکن صوم کے فوت ہو جانے کی وجہ سے ،اور اس پر ناسی (کا اعتراض) لازم آئے گا، پس جس نے تخصیصِ علل کو جائز قرار دیا ،اس نے کہا کہ یہاں اس تعلیل کا حکم ممتنع ہوگیا ایک مانع کی وجہ سے،اور وہ مانع حدیث ہے،اور ہم نے کہا کہ حکم اس علت کے نہ ہونے کی وجہ سے معدوم ہواہے،اس لئے کہ ناسی کا فعل منسوب ہے صاحب ِ شرع کی طرف تو ناسی سے جنایت کے معنی ساقط ہو گئے ،اور ناسی کا فعل معاف ہوگیا، پس روزہ باقی رہا اپنے رکن کے باقی رہنے کی وجہ سے، نہ کہ رکن ِ صوم کے فوت ہونے کے باوجود کسی مانع کی وجہ سے، تو جو چیز ان کے نزدیک دلیل ِ خصوص قرار دی گئی ہے ہم نے اس کو دلیل ِ عد م قرار دیاہے ،اور یہ (دلیل ِخصوص کو دلیل ِ عدم قرار دینا ) اس فصل کی بنیاد ہے ،پس اس کو یاد کرلو اور اس کو مضبوط کرلو پس اس میں بہت سا فقہ اور بڑا چھٹکارہ ہے ۔
------------------------------
تشریح:-مصنفؒ ایک اختلافی مسئلہ چھیڑ رہے ہیں ،جس کا عنوان ہے تخصیص ِعلت، یعنی حکم کا علت سے تَخَلُّفْ یعنی کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کسی جگہ علت ہو اور حکم کسی مانع کی وجہ سے نہ پایا جائے ،بعض مشائخ ِاحناف، عام معتزلہ ،امام مالکؒ ،امام احمدؒاس کے قائل ہیں،یہ حضرات کہتے ہیں کہ عِلَلِ شرعیہ احکام کے لئے علامات ہوتی ہیں جیسے بادل بارش کی علامت ہے ،تو جیسے یہ ہوسکتا ہے کہ بادل ہو اور بارش نہ ہو ،ایسے ہی یہ ہوسکتا ہے کہ کسی جگہ علت موجود ہو مگر کسی مانع کی وجہ سے حکم نہ پایا جائے__ عام احناف تخصیص کے جواز کے قائل نہیں ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ حکم کا تَخَلُّفْ بغیر مانع کے تو ظاہر البطلان ہے،مانع کی وجہ سے بھی حکم کا علت سے تخلف باطل ہے ،کیونکہ عِلَل