اَثَرِہٖ فی جِنْسِ الْحُکْمِ الْمُعَلَّلِ بِہٖ وَنَعْنِی بِصَلَاحِ الْوَصْفِ مُلَایَمَتَہٗ وَھُوَ یَّکُوْنَ عَلٰی مُوَافَقَۃِ الْعِلَلِ الْمَنْقُوْلَۃِ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِصَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَنِ السَّلَفِ کَقَوْلِنَا فِی الثَّیِّبِ الصَّغِیْرَۃِ اِنَّھَا تُزَوَّجُ کَرْھًالِاَنَّھَاصَغِیْرَۃٌ فَاَشْبَھَتِ الْبِکْرَفَھٰذَا تَعْلِیْلٌ بِوَصْفٍ مُلَایِمٍ لِاَنَّ الصِّغَرَ مُؤَثِّرٌ فِیْ وِلَا یَۃِ الْمَنَاکِحِ لِمَا یَتَّصِلُ بِہٖ مِنَ الْعَجْزِ تَاثِیْرَ الطَّوَافَ لِمَا یَتَّصِلُ بِہٖ مِنَ الضَّرُوْرِۃَ فِیْ الْحُکْمِ الْمُعَلَّلِ بِہٖ فِیْ قَوْلِہٖ عَلَیْہِ السَّلَامُ اَلْھِرَّۃُ لَیْسَتْ بِنَجِسَۃٍ اِنَّمَا ھِیَ مِنَ الطَّوَّافِیْنَ وَالطَّوَّافَاتِ عَلَیْکُمْ وَلَا یَصِحُّ الْعَمَلُ بِالْوَصْفِ قَبْلَ الْمُلَایَمَۃِ لِاَنَّہٗ اَمْرٌ شَرْعِیٌّ
ترجمہ:-اور بہر حال قیا س کارکن وہ چیز ہے جس کو نص کے حکم کی علامت قرار دیا گیا ہو،اور وہ علامت ان چیزوں میں سے ہو جس پر نص مشتمل ہو،اور فرع کو اصل کی نظیر قرار دیا گیا ہو اصل کا حکم ثابت کرنے میں ،اصل کی علامت کے فرع میں پائے جانے کی وجہ سے ،اور یہ (جس کو علامت قرار دیا گیا ہے )وہ وصف ہے جو صالح ہو،مُعَدَّل ہو وصف کا اثر ظاہر ہونے کی وجہ سے حکم ِمُعَلَّلْ بہ کے ہم جنس حکم میں اور صلاح وصف سے ہم مراد لیتے ہیں وصف کا حکم کے موافق ہونا ،اور وہ یہ ہے کہ وصف ان علتوں کے موافق ہو جو رسول اللہ ﷺاور سلف سے منقول ہیں،جیسے ہمارا قول ثیبہ صغیرہ کے بارے میں کہ جبراًاس کا نکاح کیاجائے گا ،اس لئے کہ وہ صغیرہ ہے تو وہ باکر ہ کے مشابہ ہوگئی، پس یہ تعلیل ہے ایسے وصف کے ساتھ جو حکم کے موافق ہے ،اس لئے کہ صغر ولایتِ نکاح میں مؤثر ہے ،اس لئے کہ اس کے ساتھ عجز متصل ہے، (سورِہرہ میں) طواف کی تاثیر کے مثل ،کیونکہ اس کے ساتھ ضرورت متصل ہے اس حکم میں جس کو طواف کے ساتھ معلل کیاگیا ہے آپ کے ارشادالھرۃلیست بنجسۃ انما ھی من الطوافین والطوافات علیکم میں ،اور وصف کے حکم کے موافق ہونے سے پہلے وصف پر عمل صحیح نہیں ہے اس لئے کہ وصف امر ِشرعی ہے۔
------------------------------
تشریح:-مصنفؒ قیاس کے رکن کو بیان فرمارہے ہیں کہ قیاس کا رکن وہ و صف ِجامع ہے اصل اور فرع کے درمیا ن جس کو نص یعنی اصل کے حکم پر علامت قرار دیاگیا ہو،اور وہ وصف ایسا ہو کہ جس پر نص مشتمل ہو،نص کا اُس وصف پر مشتمل ہونا چاہے صراحۃً ہوجیسے الھرۃلیست بنجسۃلا نھا من الطوفین والطوافات علیکم __اس میں نص کا حکم بلی کے جھوٹے کا ناپاک نہ ہوناہے اور اس کی علت طواف یعنی کثرت سے آمدورفت ہے،تو یہ نص صراحۃًعلت پر مشتمل ہے کیونکہ حدیث میںخود جملہ ہے فانہ من الطوافین ،یا اشارۃًمشتمل ہو جیسے لاتبیعو