اور نہ ان لوگوں کی مخالفت کا کوئی اعتبار ہے جو اس باب میں صاحب الرائے نہیں ہیں، مگر ایسے باب میں (غیر صاحب الرائے کی مخالفت کا اعتبار ہوگا)جس میں رائے سے استغنا ہوتا ہے۔(رائے کی حاجت نہیں ہوتی ہے)
------------------------------
تشریح:-مصنفؒ سنت کی بحث سے فارغ ہوکر اجماع کو بیان کررہے ہیں، اجماع کے لغوی معنی ہے عزم اور پختہ ارادہ کرنا، اور دوسرا معنی اتفاق کرنا۔
اجماع کی اصطلاحی تعریف ہے کسی ایک زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے صالح مجتہدین کا کسی حکم میں اتفاق کرلینا، قول میں اتفاق ہے تو اجماع ِقولی ہے، اور فعل میں اتفاق ہے تو اجماعِ فعلی ہے اور اعتقاد میں اتفاق ہے تو اجماع اعتقادی ہوگا، قولی اجماع کی بہت سی مثالیں ہیں۔
فعلی اجماع جیسے مضاربت، مزارعت، اور اعتقادی اجماع جیسے شخین (ابوبکروعمر) کی فضیلت پر تمام مجتہدین کا اعتقاد ہے۔
پھر اجماع کی حجیت میں اختلاف ہے، معتزلہ ،خوارج اور اکثر روافض اجماع کی حجیت کا انکار کرتے ہیں، مگر جمہور علماء کے نزدیک اجماع حجت ِقطعی ہے۔
مصنفؒ کہتے ہیں کہ کن لوگوں کا اجماع معتبرہے؟ اس سلسلہ میں تین مذہب ہیں، (۱)پہلا مذہب داؤد ظاہری ، شیعہ اور ایک روایت کے مطابق امام احمد بن حنبلؒ کا ہے کہ اجماع صرف صحابہ کا معتبر ہے، صرف صحابہ کو ہی اجماع کا حق ہے، ان کی دلیل یہ ہے ’’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس‘‘ اور ’’وکذلک جعلنکم امۃ وسطاً‘‘ میں مخاطب صحابہ ہی ہیں، اس کے علاوہ اور بھی دلائل ہیں۔
ان کی دلیل کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ آیات صحابہ کے ساتھ خاص مانوگے تو یہ خرابی لازم آئے گی کہ اس آیت کے نزول کے وقت موجود صحابہ کے انتقال کے بعد اجماع منعقد نہ ہو ،کیوں کہ ان کے انتقال کی وجہ سے، جمیع صحابہ کا اجماع متحقق نہ ہوگا، حالانکہ اجماع میں جمیع صحابہ کا اتفاق ضروری ہے، دوسری خرابی یہ ہوگی کہ پھر نزول آیت کے بعد جو صحابہ ایمان لائے ان کا اجماع معتبر نہ ہو، کیونکہ جب آیت اتری اس وقت وہ صحابی نہ تھے۔
(۲)دوسرا مذہب امام مالکؒ کا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ صرف مدینہ والوں کا اجماع معتبر ہے، ان کی دلیل حضورؐ کا یہ فرمان ہے ’’المدینۃ کالکیر تنفی خبثھا‘‘ مدینہ اپنے خبث کو اس طرح صاف کردیتا ہے جس طرح لوہار کی بھٹی لوہے کے زنگ کو، خطا بھی ایک طرح کا خبث ہے، تو مدینہ والوں سے خطا کی نفی ہوگئی، تو لامحالہ جب وہ کسی بات پر اتفاق کریں گے تو اتباع امت پر واجب ہوگی، نیز مدینہ دار الہجرت ہے، صحابہ کا سب سے بڑا مرکز ِعلم ہے، آپؐ کی آرام گاہ ہے، اور حضورؐ کے احوال سے سب سے زیادہ واقف اہل ِمدینہ ہیں، جب اتنی خصوصیات ہیں تو حق اہل ِمدینہ