یَقَعُ التَّعَارُضُ بَیْنَھَا لِجَھْلِنَا بِالنَّاسِخِ وَالْمَنْسُوْخُ وَحُکْمُ الْمُعَارَضَۃِ بَیْنَ الْاٰیَتَیْنِ اَلْمَصِیْرُ اِلَی السُّنَّۃِ وَبَیْنَ السُّنَّتَیْنِ اَلْمَصِیْرُ اِلَی الْقِیَاسِ وَاَقْوَالِ الصَّحَابَۃِ عَلَی التَّرْتِیْبِ فِی الْحُحَجَ اِنْ اَمْکَنَ لِاَنَّ التَّعَارُضَ لَمَّاثَبَتَ بَیْنَ الْحُجَّتَیْنِ تَسَاقَطَا لِاِنْدِفَاعِ کُلِّ وَاحِدَۃ مِنْھُمَا بِالْاُخْرٰی فَیَجِبُ الْمَصِیْرُ اِلٰی مَابَعْدَھُمَا مِنَ الْحُجَّۃِ وَعِنْدَ تَعَذُّرِ الْمَصِیْرِ اِلَیْہِ یَجِبُ تَقْرِیْرُ الْاُصُوْلِ کَمَا فِی سُوْرِ الْحِمَارِ لَمَّا تَعَارَضَتِ الدَّلَائِلُ وَلَمْ یَصْلَحِ الْقِیَاسُ شَاھِدًا لِاَنَّہٗ لَایَصْلَحُ لِنَصْبِ الْحُکْمِ اِبْتِدَاءً قِیْلَ اِنَّ الْمَاءَ عُرِفَ طَاھِرًا فِی الْاَصْلِ فَلَا یَتَنَجَّسُ بِالتَّعَارُضِ وَلَمْ یَزَلْ بِہٖ الْحَدَثُ فَوَجَبَ ضَمُّ التَّیَمُّمِ اِلَیْہِ وَسُمِّیَ مَشْکُوْکًا۔
ترجمہ:-یہ فصل ہے معارضہ کے بیان میں، اور یہ تمام حجتیں کتاب وسنت میں سے جن کی اقسام گذر چکی ہیں اپنی ذات میں حقیقۃ متعارض نہیں ہوتیں، اور نہ ان میں تناقض ہوتا ہے، اس لئے کہ یہ عاجز ہونے کی علامات میں سے ہے، اللہ کی ذات اس سے بلندوبرتر ہے بلکہ ان کے درمیان تعارض ہوتا ہے ہمارے ناسخ اور منسوخ کے نہ جاننے کی وجہ سے۔
اور دو آیتوں کے درمیان معارضہ کا حکم حدیث کی جانب رجوع کرنا ہے، اور دوحدیثوں کے درمیان (معارضہ کا حکم) قیاس اور اقوال صحابہ کی جانب رجوع کرنا ہے، حجتوں کے درمیان ترتیب کے مطابق اگر ممکن ہو، اس لئے کہ تعارض جب دو حجتوں کے درمیان ثابت ہوگا تو دونوں حجتیں ساقط ہوجائیں گی ، ان دونوں میں سے ہرایک کے دفع ہوجانے کی وجہ سے دوسری سے، تو واجب ہوگا ان دونوں کے مابعد کی دلیل کی طرف رجوع کرنا، اور اس کی طرف رجوع کے متعذر ہونے کے وقت تقریر الاصول واجب ہوگا، جیسا کہ سورِ حمار میں، جب دلائل متعارض ہوگئے ، اور قیاس شاہد بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے، اس لئے کہ قیاس ابتدا ء ًحکم کو ثابت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے، تو کہا جائے گا کہ پانی جانا گیا ہے طاہر اصل میں ،پس وہ ناپاک نہیں ہوگا تعارض سے، اور اس کی وجہ سے حدث زائل نہ ہوگا، تو وضو کے ساتھ تیمم کو ملانا واجب ہوگا، اور سور حمار کانام مشکوک رکھا جائے گا۔
------------------------------
تشریح:-معارضہ کہتے ہیں دوبرابر درجہ کی دلیلوں کا اس طرح ایک دوسرے کے مقابل ہونا کہ دونوں میں جمع ناممکن ہو، ’’دوبرابر‘‘ کی قید سے معلوم ہوا کہ دو دلیلیں اگرایک درجہ کی نہ ہوں بلکہ ایک قوی ہو اور ایک کم درجہ کی ہوتو تعارض نہ کہا جائے گا، بلکہ قوی کو ضعیف پر ترجیح دیں گے ، اور ’’جمع ممکن نہ ہو‘‘ کی قید سے معلوم ہوا کہ دودلیلوں میں اگرکسی طرح سے بھی جمع وتطبیق ممکن ہوتو تعارض نہ ہوگا، اور تنا قض کہتے ہیں دلیل کا مدلول سے تخلف ہو یعنی دلیل تو پائی