ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کے امراورحکم کوہر وقت پہنچانناایک مشکل امرتھا اس لئے شریعت نے تمام احکامات کے لئے کچھ ایسے اسباب مقرر فرمائے ہیں، جو امر خداوندی کے نائب ہوکروجوب کا تقاضا کرتے ہیں، اگرچہ حقیقی مُوْجِبْ اور شارع اللہ تعالیٰ ہی ہیں ،مگر اللہ تعالیٰ نے ہی ان اسباب کو مقرر فرمایا ہے، اس لئے یہ اعتراض وارد نہیں ہوسکتا کہ مُوْجِبِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہیں تو ان اسباب کی طرف ایجاب کی نسبت کیسے ہوتی ہے۔
جیسے حج کا سبب بیت اللہ ہے، اور بیت اللہ واحد ہے، اس میں تکرار نہیں ہے، لہٰذا حج میں بھی تکرار نہیں ہے، زندگی میں ایک ہی مرتبہ فرض ہے__ روزہ کا سبب ماہِ رمضان ہے، یاتو مطلق شہود شہر، یاہر روزہ کے لئے ہردن ، یاہردن کااول وقت علی اختلاف الاقوال، اور ماہ رمضان میں تکرار ہے تو روزہ میں بھی ہر سال تکرار ہوتی ہے__ اور نماز کا سبب اس کے اوقات ہیں ، ظہر کا وقت ظہر کے لئے، عصر کاوقت عصر کے لئے سبب ہے اور وقت میں تکرار ہے تو نماز میں بھی تکرار ہوتی ہے،__اورعقوبات ، سزائیں بھی اسباب سے متعلق ہیں ،جیسے حدِزنا کا سبب زنا، حدِسرقہ کا سبب سرقہ وچوری وغیرہ__ اور کفارہ بھی اس کے سبب سے متعلق ہے ،اور کفارہ میں عبادت کی بھی شان ہے اور عقوبت کی بھی شان ہے ، کیوںکہ کفارہ میں غلام آزاد کرنا ہوتا ہے، مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوتا ہے، صدقہ کرنا ہوتا ہے، یہ سب عبادات ہیں ، تو کفارہ میں عبادت کی بھی شان ہے، اور عقوبت کی شان بھی ہے کیونکہ یہ کفارہ فعل ممنوع کے کرنے کی سزا کے طور پر واجب ہوا ہے، تو جب کفارہ میں عبادت وعقوبت دونوں جہتیں ہیں تو کفارہ کا سبب بھی ایسی چیز کو قرار دیں گے جس میں اباحت وممانعت دونوں جہتیں ہوں ،جیسے قتلِ خطا کفارہ کا سبب ہے، تو قتلِ خطا میں اباحت وممانعت دونوں جہتیں ہیں، اباحت اس لئے ہے کہ خَطَاً قتل کرنے والا اصل میں شکار پر نشانہ لگارہا تھا، اور یہ مباح ہے، اور تحری وتحقق کوچھوڑدیا جس سے آدمی کو تیر لگ گیا، یہ ممنوع ہے، اسی طرح رمضان میں عمدًاروزہ توڑدینا کفارہ کا سبب ہے، عمدًا افطار مباح تو اس لئے ہے کہ وہ اپنی حلال چیز کھارہا ہے، اور ممانعت اس لئے ہے کہ اللہ کی مرضی کے خلاف کھارہا ہے، بہرحال کفارہ میں جب عبادت اور عقوبت دونوں پہلو ہیں ،تو اس کے سبب میں بھی اباحت اورممانعت دونوںپہلوہیں، اوراسی سبب کی طرف کفارہ کومضاف کیاجاتا ہے ،جیسے کفارۂ قتل، کفارۂ رمضان ،اضافت سببیت کو بتاتی ہے کہ مضاف الیہ مضاف کا سبب ہے،جیسے کفارۂ قتل میں قتل سبب ہے،حج بیت اللہ میں بیت اللہ سبب ہے،صلوۃالظہرمیں ظہر کا وقت سبب ہے وغیرہ ،اور معاملات (بیع ،شراء،اجارہ ،نکاح وغیرہ)کا سبب بقاء عالم کا معاملات سے متعلق ہونا ہے یعنی اللہ تعالیٰ عالم کی بقاء کا فیصلہ کرچکا ہے ،اور بقاء عالم کا تقاضا ہے کہ بندے آپسی معاملات کا ارتکاب کرتے رہیں ،تاکہ عالم باقی رہے ،اور چلتا رہے ،لہٰذا بقائِ عالم کا تعلق معاملات کے ارتکاب سے ہے ،تو بقائِ عالم معاملات کا سبب ہوا__ اور ایمان کاسبب وہ آیات ودلائل ہیں جو عالم کے حادث ہونے پر دلالت