تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مارنا ہے۔ یاد رکھو جیسا کہ دوسرے کا مال محترم ہے ایسے ہی بلکہ اس سے زیادہ آبرو ہے چنانچہ جب آبرو پر آبنتی ہے تو مال تو کیا چیز ہے جان تک کی پرواہ نہیں رہتی۔ پھرآبرو ریزی کرنے والا کیسے حق العبد (بندے کے حق) سے بری ہو سکتا ہے مگر غیبت ایسی رائج ہوئی ہے کہ باتوں میں احساس بھی نہیں ہوتا کہ غیبت ہو گئی یا نہیں۔ اس سے بچنے کی ترکیب تو بس یہی ہے کہ کسی کا بھلا یا برا اصلاً (بالکل) ذکر ہی نہ کیا جائے کیونکہ ذکر محمود (اچھا ذکر) بھی اگر کیا جائے کسی کا تو شیطان دوسرے کی برائی تک پہنچا دیتا ہے اور کہنے والا سمجھتا ہے کہ میں ایک ذکر محمود کر رہاہوں اور اس طرح ایک خیر اور ایک شرمل جانے سے وہ خیر بھی کالعدم ہو گئی اور حضرات اپنے ہی کام بہتیرے ہیں پہلے ان کو پوراکیجئے‘ دوسرے کی کیا پڑی ہے۔ علاوہ بریں غیبت تو گناہ بے لذت بھی ہے اور دنیا میں بھی مضر (نقصان دہ) ہے۔ جب دوسرا آدمی سنے گا تو عداوت (دشمنی) پیدا ہوجائے گی اور پھر کیا ثمرات اس کے ہوں گے۔ اسی طرح زبان کے بہت گناہ ہیں۔ سب سے بچنا ضروری ہے۔ [وعظ تطہیر رمضان] انسان کے لیے روزہ مقررہونے کے وجوہ فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ اس کی عقل کو اس کے نفس پر غلبہ اور تسلط دائمی حاصل رہے مگر بباعث بشریت (انسان ہونے کی وجہ سے) بسا اوقات اس کا نفس اس کی عقل پر غالب آتا ہے۔ لہٰذا تہذیب و تزکیہ نفس کیلئے اسلام نے روزہ کو اصول میں سے ٹھہرایا ہے۔ روزہ سے انسان کی عقل کو نفس پر پورا پورا تسلط و غلبہ حاصل ہوجاتا ہے۔ ! روزہ سے خشیت اور تقویٰ کی صفت انسان میں پیدا ہو جاتی ہے چنانچہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ یعنی روزہ تم پر اس لیے مقرر ہوا کہ تم متقی بن جاؤ۔ " روزہ رکھنے سے انسان کو اپنی عاجز و مسکنت اور خدا تعالیٰ کے جلال اور اس کی قدرت پر نظر پڑتی ہے۔ # روزہ سے چشم بصیرت کھلتی ہے۔ $ دور اندیشی کا خیال ترقی کرتا ہے۔ % کشف حقائق الاشیاء ہوتا ہے۔ (یعنی چیزوں کی حقیقتیں کھلتی ہیں) & درندگی و بہیمیت سے دوری ہوتی ہے۔ ' ملائکہ الٰہی سے قرب حاصل ہوتا ہے۔ ( خدا تعالیٰ کی شکر گزاری کا موقع ملتا ہے۔ ) انسانی ہمدردی کا دل میں ابھار پیدا ہوتا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جس نے بھوک اور پیاس محسوس ہی نہ کی ہو وہ بھوکوں اور پیاسوں کے حال سے کیونکر واقف ہو سکتا ہے اور وہ رزاق مطلق کی نعمتوں کا شکریہ علی وجہ الحقیقت کب ادا کر سکتا ہے۔ اگرچہ زبان سے شکریہ ادا کرے مگر جب تک اس کے معدہ میں بھوک اور پیاس کا اثر اور اس کی رگوں اور پٹھوں میں ضعف و ناتوانی کا احساس نہ ہو وہ نعمت ہائے الٰہی کا کماحقہ‘ شکر گزار نہیں بن سکتا کیونکہ جب کسی کی کوئی محبوب و مرغوب و مالوف چیز کچھ زمانہ گم ہو جائے تو اس کے فراق سے اس کے دل کو اس چیز کی قدر معلوم ہوتی ہے۔