اشرف العملیات - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
کی روح اپنا کلام سن کر خوش ہورہی ہے اور وجد میں آرہی ہے، ہم لوگ بڑے تعجب میں تھے اور کوئی وجہ سمجھ میں نہ آتی تھی، اتنے میں مغرب کا وقت ہوگیا، نماز پڑھنے کے لیے اٹھے۔ ہم تینوں نے آپس میں گفتگو کی کہ یہ کیا بات ہے ؟ اخیر میں یہ رائے قرار پائی کہ یہ سب کرشمے قوتِ خیالیہ کے ہی ہوتے ہیں، اب اس کا یہ امتحان کرنا چاہیے کہ جب وہ لوگ عمل کرنے لگیں، تو ہم تینوں یہ خیال کرکے بیٹھ جائیں کہ پایہ نہ اٹھے۔ مہتمم صاحب بولے کہ وہ لوگ مشّاق ہیں، ہم لوگوں کی کوشش ان کے مقابلہ میں کیا کارگر ہوسکتی ہے؟ میں نے کہا کہ تم ابھی سے ہمت نہ ہارو، نہیں تو کچھ بھی نہ ہوسکے گا، یہی سمجھنا چاہیے کہ ان کے خیال پر ہمارا خیال ضرور غالب آئے گا۔ امتحان تو کرنا چاہیے۔ چناں چہ ہم لوگ یہ مشورہ کرکے پھر مغرب کے بعد پہنچے اور ان لوگوں سے کہا کہ اس وقت پھر اپنا عمل دکھلاؤ، انھوں نے پھر عمل کرنا شروع کیا، ادھر ہم یہ تینوں یہ خیال جما کر بیٹھ گئے کہ پایہ نہ اٹھے ۔ چناں چہ ان لوگوں نے بہت کوشش اور بہت زور لگایا کہ پایہ اٹھے، مگر کچھ نہ ہوسکا، وہ لوگ بڑے شرمندہ ہوئے اور مجھ کو یقین ہوگیا کہ یہ سب قوتِ خیالیہ کے کرشمے ہیں۔ پھر اگلے روز ہم نے خود تجربہ کیا اور اسی طرح ہاتھ رگڑ کر میز پر رکھے، اور ہم یہ تینوں سوچ کر بیٹھ کر گئے کہ فلاں پایہ اٹھے، چناں چہ وہی پایہ اٹھا، پھر یہ سوچا کہ اب کی مرتبہ فلاں فلاں دو پایہ اٹھیں، چناں چہ وہ دونوں اٹھے، پھر تیسرے پایہ کا خیال کیا تو وہ بھی اٹھنے لگا، لیکن ان دونوں میں سے جو پہلے کے اٹھے ہوئے تھے ایک پایہ نیچے گرگیا، تینوں ایک ساتھ نہ اٹھ سکے، اس کے لیے زیادہ قوت کی ضرورت تھی، پھر ہم نے میز پر بجائے ہاتھ رکھے، ایک انگلی رکھ کر اسی طرح پائے اٹھائے، پھر اس میز کے اوپر دوسری میز رکھی، اور اس پر ہاتھ رکھ کر یہ سوچ کر کھڑے ہوگئے کہ اوپر والی میز کا فلاں پایہ اور نیچے والی میز کا فلاں پایہ اٹھ جائے، چناں چہ اسی طرح اٹھ گئے، غرض جس طرح چاہا اسی طرح پائے اٹھ اٹھ گئے۔ اب ہمیں پوری طرح اطمینان ہوگیا۔ پھر ہم نے اسی قاعدہ کے موافق میز کو یہ خطاب کیا کہ اگر تجھ میں کوئی روح آتی ہے تو ایک بار فلاں پایہ اٹھے، اور اگر نہیں آتی تو دو بار اٹھے، چناں چہ دو بار اٹھا، تو خود انہیں کے قاعدے سے روح آنے کا غلط ہونا ثابت ہوگیا۔ اصل بات یہی ہے کہ یہ سب تصرفات خیال کے ہیں۔ دوسری بات یہ سمجھنا چاہیے کہ جب خزانۂ خیال میں کوئی چیز آجاتی ہے تو اس کے آجانے کا اگرچہ علم نہ ہو، مگر اس کا اثر بھی عامل کی متخیلہ (قوتِ خیال) کے ذریعہ سے معمول پر بعض مرتبہ ایسا ہی پڑتا ہے جیسا اس صورت میں ہوتا ہے کہ جب عامل کو اس چیز کا ادراک یعنی علم العلم حاصل ہو جانا۔ بہرحال یہ سب کرشمے قوتِ خیالیہ کے ہیں اس میں کسی روح کو دخل نہیں یہ سب اس عامل کی قوتِ متخیلہ کا اثر ہوتا ہے۔ اگر دو شخص ایک جگہ جمع ہوں تو ایک کے ذہن میں جو خیال ہوتا ہے وہ دوسرے کے ذہن میں بھی پہنچ جاتا ہے۔1