اشرف العملیات - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تعویذ کا بیان تعویذوں کی اصل اور اس کا ماخذ حدیث سے تعویذوں کی جو حالت معلوم ہوتی ہے، اس پر عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ کی عادت دلالت کرتی ہے جو ’’حصن حصین‘‘ میں مذکور ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ایک دعا: أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ إلخ…: (یعنی میں اللہ تعالیٰ کے کلمات کے ساتھ پناہ لیتا ہوں) پڑھاتے تھے اور جو سیانے نہ تھے (یعنی چھوٹے بچے تھے) ان کو برکت پہنچانے کا یہ طریقہ تھا کہ دُعا لکھ کر گلے میں ڈال دیتے تھے، یہ حدیث تعویذ کا ماخذ ہے۔ اس سے صراحۃً معلوم ہوا کہ اصل مقصود پڑھانا تھا مگر جو سیانے نہ تھے ان کو برکت پہنچانے کا یہ طریقہ تھا کہ دعا لکھ کر گلے میں ڈال دیتے ۔ تو تعویذ باندھنے کا دوسرا درجہ ہے مگر حقیقت سے ناواقفی کی وجہ سے اس کا الٹا ہوگیا کہ تعویذ کا اثر زیادہ سمجھنے لگے اور پڑھنے کا کم۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ چوں کہ اکثر لوگ اس زمانہ میں جاہل ہوتے ہیں اس لیے ہمارے بزرگوں نے تعویذ کا طریقہ اختیار کیا۔ دوسرے پڑھنے میں دقت ہے اور نفس ہمیشہ اپنی آسانی کی صورت نکال لیتا ہے۔ بہرحال اسمائے الٰہیہ میں برکت ضرور ہے مگر جب کہ مناسبت بھی ہو۔1عملیات میں اصل پڑھنا ہے لکھ کر دینا یعنی تعویذ خلافِ اصل ہے : عملیات میں اصل پڑھنا ہے اور لکھ کر دینا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کے لیے ہے جو پڑھنا نہ جانے۔ وہ حدیث یہ ہے: في ’’حصن الحصین‘‘: وَکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِؓ یُلَقِّنُہَا مَنْ عَقِلَ مِنْ وَلَدِہٖ، وَمَنْ لَّمْ یَعْقِلْ کَتَبَہَا فِيْ صَکٍّ ثُمَّ عَلَّقَہَا فِيْ عُنْقِہٖ۔2 ’’حصن حصین‘‘ میں ہے کہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ اپنی سمجھ دار اولاد کو ان کلمات کی تلقین فرماتے تھے، اورجو ناسمجھ ہوتے ان کے لیے ایک کاغذ میں لکھتے پھر اس کی گردن میں لٹکا دیتے۔ اب جو عام رسم ہوگئی ہے کہ جو لوگ پڑھ سکتے ہیں وہ بھی تعویذ لکھواتے ہیں۔ گو یہ جائز ہے لیکن اس کا نفع کم ہے۔1 (الغرض) تعویذات میں اصل تو حروف والفاظ ہیں جوپڑھے جائیں۔ مگر جو لوگ پڑھ نہیں سکتے ان کے واسطے ان حروف کا بدل یہ نقوش ہیں جیسا کہ ’’حصن حصین‘‘ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے: مَنْ لَمْ یَعْقِلْہَا کَتَبَہَا فِيْ صَکٍّ وَعَلَّقَہَا فِيْ عُنُقِہٖ۔2