اشرف العملیات - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ہونے کا میں ذمہ دار نہیں۔ اور اگر اثر ہو بھی تو میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس میں میرا کچھ دخل نہ ہوگا اگر اتنا بھی کریں تو غنیمت ہے۔ مگر بزرگوں کے یہ اخلاق کہ کسی کا جی برا نہ ہو، اگر جی برا ہونے میں اتنی وسعت (اور اس کا اتنا لحاظ) ہے تو پھر حق واضح ہوچکا اس میں جی برا ہونے کی کیا بات ہے، نرمی سے کہہ دو، سمجھا کر کہہ دو۔2 فرمایا: مجھ سے جو تعویذ مانگتا ہے لکھ تو دیتا ہوں لیکن یہ بھی کہہ دیتا ہوں کہ مجھے آتا نہیں کہ اگر کہیں اثر نہ ہو تو خوامخواہ اللہ کے نام کو بے اثر نہ سمجھے حالاں کہ اللہ تعالیٰ کانام ان باتوں کے لیے تھوڑی ہے وہ تو دل کے امراض کے لیے ہے۔3بزرگی اور تعویذ فرمایا: تعویذ سے (مرض) اچھا ہوجانا یہ کچھ تعویذ دینے والے کی بزرگی کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ جس کی قوتِ خیالیہ قوی ہوتی ہے اس کے تعویذ میں اثر زیادہ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص بہت زیادہ قوتِ خیالیہ رکھتا ہو تو اس کے محض سوچنے ہی سے جاڑا بخار اترجاتا ہے۔ چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو یہ قوت اس میں بھی موجود ہے اور یہ مشق سے اور بڑھ جاتی ہے خصوصاً بعض طبیعتوں کو اس سے خاص مناسبت ہوتی ہے۔1 اکثر لوگ تعویذ گنڈے کرنے والوں کے معتقد ہوجاتے ہیں خصوصاً جس کے تعویذ گنڈے سے نفع ہوجائے حالاں کہ بزرگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کسی طبیب کے نسخے سے مریض کو شفا ہوجائے اور اس کو بزرگ خیال کرنے لگیں۔ مگر لوگ تعویذ دینے والے کے معتقد ہوتے ہیں۔ کسی طبیب ڈاکٹر کو (اس کے علاج سے فائدہ ہوجانے سے) نہ معتقد ہوتے ہیں نہ بزرگ سمجھتے ہیں، نہ معلوم اس میں اور اس میں کیا فرق کرتے ہیں۔ میرے نزدیک تو کوئی فرق نہیں ہے دونوں دنیوی فن ہیں۔ فرق کی وجہ صرف یہ سمجھ آتی ہے کہ ڈاکٹر کے علاج کو دنیوی امر سمجھتے ہیں اور عامل کے علاج کو دینی امر سمجھتے ہیں۔ یہ جہالت اور حقیقت سے بے خبری ہے۔2علما ومشایخ سے تعویذ کی درخواست آج کل لوگ علما ومشایخ کے پاس اولاً تو آتے نہیں، اور اگر آتے بھی ہیں تو یہی فرمائش ہوتی ہے کہ تعویذ دے دو۔ صاحبو! علما ومشایخ سے تعویذ کی درخواست کرنا ایسا ہی ہے جیسے سنار سے یہ کہنا کہ گھاس کھودنے کا کھرپہ بنادو۔ سنار کا کام تو یہ ہے کہ وہ عمدہ نازک زیور بنائے۔ اسی طرح علما کا کام مسئلے بتانا ہے۔ افسوس گوشہ نشینوں سے دنیا کے کام کراتے ہو؟ کیا انھوں نے تمہارے دنیا کے کام کرنے کے لیے دنیا کو چھوڑا ہے؟ ہاں دنیا کے کاموں کے لیے دعا کرانا جائز ہے۔ شکایت تو تعویذ کی ہے۔ ہاں اگر دس باتیں دین کی پوچھیں اور اس میں ایک دنیا