اشرف العملیات - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے۔ یعنی ایک مومن غلام آزاد کرنا۔ اگر یہ نہ کرسکے تو دو مہینے پے درپے (لگا تار) روزے رکھنا اور اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرنا (بھی ضروری ہے ) کیوں کہ حق اللہ اور حق العبد دونوں ہے۔ البتہ اگر وہ شخص مقتول مباح الدم تھا (یعنی اس کا قتل کرنا مباح تھا) تو کچھ گناہ نہیں ہوا۔3بددعا کے ذریعے کسی کو ہلاک کرنے کا شرعی حکم شاہجہاں پور میں ایک بزرگ تھے، بہت مخلص آدمی تھے، عقائد بھی عمدہ تھے، ان سے ایک شخص کو عداوت تھی، اور وہ ان کو بہت ستاتا تھا۔ ایک مرتبہ ان بزرگ نے اس کے لیے بد دعا کردی جس سے وہ ہلاک ہوگیا۔ اہل اللہ کا دل دکھانا بڑے وبال کا سبب ہوتا ہے۔ حق تعالیٰ کی غیرت ایک دن ضرور اس کو تباہ کردیتی ہے۔ چناں چہ حدیثِ قدسی میں آیا ہے: جو میرے ولی سے عداوت کرے اس کو میں اپنی طرف سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں۔ اب ان بزرگ کا میرے پاس خط آیا کہ ایک شخص میرا دشمن تھا، مجھے بہت ستاتا تھا۔ ایک دن میرے منہ سے اس کے حق میں بد دعا نکل گئی کہ ابھی اس کو ہلاک کردے۔ اسی عرصہ میں وہ ہلاک ہوگیا۔ یہ واقعہ اگر کسی دوسرے کو پیش آتا وہ اپنے مریدوں میں بیٹھ کر ڈینگیں مارتا کہ دیکھو ہماری بد دعا سے ہلاک ہوگیا۔ بھلا ہماری بد دعا خالی جاسکتی ہے۔ بطور کرامت کے اس کو بیان کرتا۔ مگر ان بزرگ میں اس کے بجائے دوسری حالت پیدا ہوئی۔ انھوں نے لکھا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں مجھے قتل کا گناہ نہ ہو۔ سبحان اللہ، خوفِ خدا کی یہی شان ہوتی ہے۔ میرے اوپر اس خط کا بہت اثر ہوا، اور اس سوال سے مجھے سائل کی بہت قدر معلوم ہوئی۔ بس رسم پرستوں اور حق پرستوں میں یہی فرق ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت لرزاں ترساں رہتے ہیں (ڈرتے رہتے ہیں)، اور کسی چیز پر بھی نازاں نہیں ہوتے۔ مجھ پر اس خط کا بہت اثر ہوا، اس سوال سے مجھے سائل کی بہت قدر معلوم ہوئی، اور میں ان کی بزرگی کا معتقد ہوگیا۔ کیوں کہ ایسا سوال مجھ سے عمر بھر کسی نے نہ کیا تھا۔ اور سوال بھی ایسے واقعے کا جو ظاہر میں کرامت کے مشابہ معلوم ہوتا ہے۔ میں نے جواب لکھا کہ واقعی آپ کا اندیشہ درست ہے مگر اس میں تفصیل ہے وہ یہ ہے کہ: بددعا کے وقت دو حالتیں ہوسکتی ہیں: ایک تو یہ کہ محض سرسری طور پر حق تعالیٰ سے درخواست کردی۔ اور اپنے دل کو اور اپنے خیا ل کو اس کے ہلاک کرنے کی طرف متوجہ نہیں کیا۔ اس صورت میں اگر وہ شخص ہلاک ہوجائے تو یہ بددعا کرنے والا قاتل تو نہ ہوگا، کیوں کہ بددعا سے ہلاک ہونے میں اس کا دخل نہیں ہے۔ بلکہ اس میں محض حق تعالیٰ سے درخواست ہے اور حق تعالیٰ اپنی مشیت سے ہلاک کرنے والے ہیں۔ پس یہ شخص قاتل تو نہیں۔ باقی بددعا کا گناہ سو اگر شرعاً ایسی بد دعا جائز تھی، اور وہ شخص بد دعا کے قابل تھا، تب تو بددعا کا بھی گناہ نہیں ہوا۔ اور اگر