اشرف العملیات - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مجلّد قرآن زور سے کسی کے سر میں اس طرح ماردے کہ وہ مرجائے تو کیا یہ قتل جائز ہوگا اس وجہ سے کہ قرآن مقدس کے واسطے سے ہوا ہے؟ کیا عدالت اس پر دارو گیر نہ کرے گی؟ کیوں کہ اس نے تو قرآن سے مارا ہے اس لیے مجرم نہیں ہے۔ بس اسی سے اس کو بھی سمجھ لیجیے۔تراویح میں ختم قرآن کے موقع پر دم کرنا : ختم کے روز ایک اور خرابی ہوتی ہے وہ یہ کہ اس روز حافظ جی کا مصلّی کیا ہوتا ہے پنساری کی دکان ہوتی ہے کہ اجوائن کی پڑیاں رکھی ہیں کہیں سیاہ مرچیں۔ کوئی ان صاحبوں سے پوچھے کہ حافظ صاحب نے تمہاری اجوائن ہی کے لیے ختم قرآن پڑھا تھا؟ یاد رکھو! کہ اجوائن وغیرہ پر دم کرانا یہ دنیا کا کام ہے دین کے کام کی غایت (مقصد) دنیا کو بنانا بہت نازیبا ہے اور تعویذ ونقش لکھنا اس کے حکم میں نہیں، کیوں کہ وہ خود دنیا ہی کا کام ہے تو اس کی غایت دنیا ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ وہ تو ایسا ہے جیسے حکیم جی کا نسخہ لکھنا عبادت نہیں ہے اس پر اگر اجرت بھی لے تو کچھ حرج نہیں ہے۔ اور قرأت قرآن (یعنی قرآن پڑھنا خصوصاً تراویح میں) عبادت ہے اس کا ثمرہ آخرت میں ملے گا۔ الغرض اجوائن وغیرہ پر (ختم کے روز) قرآن کو دم کرانا یہ دین کی غایت کو دنیا بنانا ہے اور بہت بے ادبی ہے اور قرآن کو اس کے مرتبہ سے گھٹانا ہے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ ناجائز ہے لیکن پیٹ بھر کر بے ادبی ہے۔2مسجد میں بیٹھ کر عملیات کرنے کا شرعی حکم عملیات میں ایک بات قابل لحاظ یہ ہے کہ جو عملیات دنیا کے واسطے ہوتے ہیں وہ موجب ثواب نہیں ہوتے ہیں (یعنی ان کے کرنے میں ثواب نہیں ملتا)۔ ان میں ثواب کا اعتقاد رکھنا بدعت ہے۔ اسی طرح ایسے عملیات کو مسجد میں بیٹھ کر نہ پڑھنا چاہیے اور نہ اس قسم کے تعویذ مسجد میں بیٹھ کر لکھنے چاہیے۔ کیوں کہ اگر تعویذپر اجرت لی جایے تو یہ تجارت ہے جس کو مسجد سے باہر کرنا چاہیے۔ فقہاء نے تصریح کی ہے کہ جو مدرس بچوں کو تنخواہ لے کر پڑھاتا ہو اس کو (شدید ضرورت کے بغیر) مسجد میں نہ بیٹھنا چاہیے۔ کیوں کہ مسجد میں اجرت کاکام کرنا بیع وشرا میں داخل ہے۔ اسی طرح جو شخص اجرت پر کتابت کرتا ہو، یا جو درزی اجرت پر کپڑے سیتا ہو یہ سب لوگ مسجد میں بیٹھ کر یہ کام نہ کریں۔ البتہ معتکف کے لیے حالت اعتکاف میں گنجائش ہے۔1 اور اگر مسجد میں بیٹھ کر اپنے لیے کوئی عمل کیا جائے تو یہ تجارت تو نہیں ہے مگر ہے دنیا کا کام وہ بھی مسجد میں نہ ہونا چاہیے۔