اشرف العملیات - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ہے۔ چناں چہ ایک بی بی کی مانگ بار بار کوشش کے باوجود سیدھی نہ نکلتی تھی، احقر نے کہا کہ {اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ}2 پڑھ کر مانگ نکالو۔ چناں چہ اس کا پڑھنا تھا کہ بے تکلف مانگ سیدھی نکل آئی۔ احقر نے یہ حکایت اس لیے عرض کی ہے کہ اگر کوئی طالبِ صادق بھی اس معمول کو اختیار کرے تو نفع اور برکت کی امید ہے۔ اشرف علی 3عملیات میں اجازت دینے کی حقیقت اور اس کا فائدہ سوال کیا گیا کہ عملیات تعویذات میں اجازت کی کیا ضرورت ہے؟ فرمایا: عملیات دو قسم کی ہیں: ایک تو وہ جن کا اثر دنیاوی ضرورتوں کا پورا ہونا ہے۔ اس میں اجازت کا مقصد تقویتِ خیال (یعنی خیال کو مضبوط کرنا) ہے کیوں کہ رواج اور عادت کی وجہ سے پڑھنے والے کو یہ اطمینان ہوجاتا ہے کہ اجازت کے بعد خوب اثر ہوگا۔ اور اثر ہونے کا دارو مدار قوتِ خیال پر ہے اور اجازت وغیرہ قوتِ خیال کا ذریعہ ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ اجازت دینے والے کی توجہ بھی اس کی طرف ہوجاتی ہے اس سے اس کے خیال کے ساتھ ایک دوسرا خیال مل جاتا ہے جس سے عمل پڑھنے والے کے خیال کو تقویت پہنچتی ہے۔ دوسرے وہ اعمال جن کا ثمرہ اخروی ہوتا ہے (یعنی آخرت میں ثواب ہوگا) سو ایسے اعمال میں اجازت کی کوئی ضرورت نہیں، ثواب اور اللہ کا قرب ہر حالت میں یکساں ہوگا اور اگر اس کو اجازتِ حدیث وغیرہ پر قیاس کیا جائے تو صحیح نہیں کیوں کہ وہاں اجازت سے سند کی روایت مقصود ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص روایت کا اہل نہیں ہوتا۔ اسی طرح میرا خیال ہے کہ ہر شخص وعظ کا بھی اہل نہیں جس کی حالت پر اطمینان ہوجائے کہ وہ گڑبڑ نہ کرے گا اس کو اجازت دینا چاہیے۔ الغرض اخروی اعمال میں اجازت کے کوئی معنی نہیں بلا اجازت بھی (ان اعمال کے کرنے سے) ثواب میں کمی نہ ہوگی۔ البتہ ماثور (یعنی مسنون) دعاؤں میں الفاظ واعراب کی تصحیح بھی مقصود ہوتی ہے سو جس کو استعداد نہ ہو (جو صحیح نہ پڑھ سکتا ہو) اس کے لیے اجازت میں یہ مصلحت ہے کہ استاد صحیح کرادے گا، اور جس کو اتنی استعداد ہو کہ وہ خود صحیح پڑھ سکتا ہواس کو اس کی بھی ضرورت نہیں۔1وظیفہ پڑھنے میں اجازت لینے کی حقیقت