اشرف العملیات - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہ خاوند کی تسخیر کی لیے تعویذ کرانا حرام ہے۔ گو اس فتوے کی عبارت مطلق ہے مگر قواعد سے اس کی شرح یہ ہے کہ حقوق دو طرح کے ہیں: ایک تو وہ حقوق جو شوہر پر شرعاً واجب ہیں۔ اور ایک وہ جو شرعاً واجب نہیں۔ سو جو حقوق واجب نہیں اس میں کسی تعویذ وعمل کے ذریعے سے اس کو مجبور کرنا یعنی تسخیر کی ایسی تدبیر جس سے وہ مغلوب اور پاگل ہوجائے اور اپنے مصالح کی کچھ خبر نہ رہے یہ غیر واجب پر مجبور کرنا ہے۔ ہاں اگر حقوقِ واجبہ میں کوتاہی کرتا ہو تو اس کے لیے مجبور کرنا بھی جائز ہے۔ اور چوں کہ ان عملیات میں اثر قصد وارادہ کے تابع ہوتا ہے۔ اس کے لیے عمل کے وقت غیر واجبہ حقوق حاصل ہونے کا قصد کرنا بھی گناہ ہے۔ اور قصد وارادہ کے تابع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ عملیات بھی ایک قسم کا مسمریزم ہے جس سے کسی کے دل اور دماغ پر قابو حاصل کیا جاتا ہے۔ اور یہ جزئیہ یاد رکھنے کے قابل ہے اگر کسی کو یہ شرح معلوم نہ ہو تو وہ فقہا پر اعتراض کرے گا۔ اس لیے کہ فقہا کے اس جزئیہ میں اس تفصیل کی تصریح نہیں۔جیسے طب کی کتابوں میں بعضے نسخے ہیں جن میں خاص اس مقام پر قیود کی تصریح نہیں۔ مگر قواعد سے وہ مقید ہیں۔1حبِ زوجین کا تعویذ میاں بیوی کی موافقت کے لیے تعویذ کرنا مثلاً کوئی شخص اپنی بیوی کے حقوقِ واجبہ ادا نہیں کرتا تو اس نیت سے تعویذ کرنا جائز ہے کہ دونوں میں موافقت ہوجائے اور شوہر حقوق کو ادا کرنے لگے۔ مگر عامل یہ تصور نہ کرے کہ شوہر اس پر فریفتہ ہوجائے بلکہ ادائے حقوقِ واجبہ کا تصور کرے اور جس کو آج کل تسخیر کہتے ہیں اس کا قصد نہ کرے۔ تعویذ دینے اور لینے والے سب کواس کا لحاظ رکھنا چاہیے۔2 اگر کسی بزرگ کو دیکھا ہو کہ وہ میاں بیوی میں محبت ہونے کے لیے عمل کرتے ہیں تو وہ اس درجہ کا عمل کرتے ہیں جس سے میاں حقوقِ واجبہ ادا کرنے لگے۔ یہ نہیں کہ مغلوب الحواس ہوجائے۔3 سوال نمبر ۴۹۹: حضرت مولانا عبد الحی لکھنوی ؒ نے اپنی کتاب ’’نفع المفتی والسائل‘‘ ص ۵ میں یہ فتوی نقل کیا ہے کہ عورت کا خاوند کو رضامند کرنے کے واسطے تعویذ بنانا حرام ہے کیا یہ صحیح ہے؟ الجواب: رضامند کرنے کے دو درجے ہیں: ایک درجہ وہ جس سے حقوقِ واجبہ میں کوتاہی نہ کرے۔ دوسرا درجہ وہ جس میں حقوقِ غیر واجبہ میں اس کو مجبور کیا جائے۔ پہلے درجے کی تدبیر مباح ہے۔ اگرچہ اس میں جبر ہی سے کیوں نہ کام لیا جائے۔ اور دوسرے درجے کی تدبیر اگر جبر کی حد تک نہ ہو تو جائز ہے اور اگر جبر کی حد تک ہو تو حرام ہے۔ بس اس مسئلے میں قواعد شرعیہ سے دو قیدیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ تعویذ یا عمل ایسا ہو جس سے معمول (یعنی جس پر عمل کیا