اشرف العملیات - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
(حاصل یہ کہ ) تعویذ تو صرف نقوش ہیں۔ اصل چیز الفاظ ہیں۔ اگر کوئی پڑھ سکے تو وہ تعویذنہ لے بلکہ خود پڑھ لے۔3اصل تو پڑھنا ہے تعویذ اَن پڑھ جاہلوں اور بچوں کے لیے ہوتا ہے فرمایا: ’’حصن حصین‘‘ میں ایک حدیث ہے جس میں ارشاد ہے: من لم یقرأ کتبہا في صک۔ یعنی جو پڑھ نہ سکے وہ کسی کاغذ پر لکھ لے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن ضرور توںکے لیے تعویذ لکھے جاتے ہیں ان میں اصل چیز دعا اور آیات کا پڑھنا ہے۔ وہی زیادہ نافع ہے۔ لکھ کر گلے میں ڈالنا تو ان کے لیے ہے جو پڑھ نہ سکیں، جیسے بچے یا بالکل ایسے جاہل جن کی زبان سے قرآن اور دعا کے الفاظ ادا ہونا مشکل ہو۔ آج کل لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا نام لینے اور پڑھنے کا تو ذوق رہا ہی نہیں اس لیے اگر کوئی دعا یا وظیفہ ان کو بتلایا جائے تو اس کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔اور یوں چاہتے ہیں کہ خود کچھ کرنا نہ پڑے بس کوئی پھونک مار دے یا لکھی ہوئی چیز دے دے۔اس سے سب کا م ہوجاتا ہے۔4پڑھا ہوا پانی تعویذ سے زیادہ مفید ہے ایک شخص نے کسی عضو کے درد کے لیے تعویذ مانگا۔ فرمایا: دوا یا پانی پر دم کرالو، وہ بدن کے اندر جائے گا جس سے زیادہ اثر کی امید ہے۔1تعویذ کن باتوں کے لیے ہوتا ہے ایک صاحب نے تعویذ مانگا جو بیمار تھے۔ فرمایا: تعویذ اصل میں ان باتوں کے لیے ہے جن کی دوا نہیں ہے۔ جیسے آسیب اور نظر بد۔ اور جن کا علاج ہے ان کا علاج کرانا چاہیے۔ ان صاحب نے اصرار کیا تو فرمایا: سورۂ فاتحہ (الحمد للّٰہ پوری سورت) پڑھ کر پانی پر دم کرلیا کرو کیوں کہ پڑھنے میں زیادہ اثر ہے۔ اور حدیث سے بھی تعویذ (صرف) چھوٹے بچوں کے لیے ثابت ہے جو پڑھ ہی نہیں سکتے۔ بڑوں کے لیے کہیں ثابت نہیں ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو العاص ؓکی عادت تھی کہ جو بچے یاد کرنے کے قابل ہوتے تھے ان کو یہ دعا سکھاتے تھے: أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ للّٰہِ التَّامَّاتِ إلخ۔ اور جو پڑھنے پر قادر نہ تھے ان کے گلے میں (یہ دعا لکھ کر) ڈال دیتے تھے۔ مگر اب عام عادت تعویذ ہی مانگنے کی ہوگئی ہے۔2