اشرف العملیات - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مباح کا حکم مباحات (یعنی جائز کام) دو حال سے خالی نہیں: یا تو وہ دین کے لیے نافع ہیں جیسے: صحت کی حفاظت کی غرض سے چلنا پھرنا، ورزش کرنا۔ یا نافع نہیں ہیں۔ اگر وہ دین میں نافع ہے تو وہ مامور بہ (اور پسندیدہ) ہے، گو واجب نہ ہو مگر جب اچھی نیت سے کیا جائے تو وہ مستحب ضرور ہوجاتا ہے اور اس میں ثواب بھی ملتا ہے۔اور اگر وہ دین میں نافع نہیں تو فضول ہے۔ اور فضولیات کے ترک کردینے کا شریعت میں حکم دیا گیا ہے، گو ان کو حرام نہ کہا جائے مگر کراہت سے خالی نہیں۔2عملیات تعویذات اور علاج کا فرق تعویذ اور علاج میں میرے نزدیک تو کوئی فرق نہیں، دونوں ہی دنیوی فن ہیں، عوام اس میں فرق سمجھتے ہیں کہ تعویذ کرنے والے کی بزرگی کے معتقد ہوتے ہیں اور کسی ڈاکٹر، طبیب کو بزرگ نہیں سمجھتے۔ عوام کی وجہ فرق یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ڈاکٹر کے علاج کو دنیوی کا م سمجھتے ہیں اور عامل کے علاج کو دینی کام خیال کرتے ہیں۔ اور عوام کا یہ خیال اس وجہ سے ہے کہ عملیات کا تعلق امورِ قدسیہ سے ہے، یہ سب جہالت اور حقیقت سے بے خبری ہے۔3عملیات فی نفسہ جائز ہیں اگر ان میں کوئی شرعی مفسدہ نہ ہو : اگر جواز کے شرائط پائے جائیں اور مفاسد نہ پائے جائیں تو عملیات بلا تکلف جائز ہیں، خود جناب رسول اللہﷺ نے قولاً 1 وفعلاً وتقریراً (یعنی اپنے قول وعمل سے) اس کی اجازت دی ہے اور صحابہؓ اور سلف صالحین نے اس کا استعمال فرمایا ہے۔2جھاڑ پھونک کا ثبوت حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب اپنی خواب گاہ میں تشریف لے جاتے تو اپنے ہاتھوں میں کچھ دم کرتے اور پڑھتے۔ روایت کیا اس کو بخاری ومسلم وترمذی وابوداود ومالک نے۔3 فائدہ: اگرچہ اہلِ طریق بزرگانِ دین کے نزدیک یہ مقصود نہیں مگر مخلوق کو نفع پہنچانے کی غرض سے جو شخص اس کی درخواست کرتا ہے اس کی دل شکنی نہیں کرتے۔ اس حدیث سے اس کی مشروعیت معلوم ہوتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے نفس کے لیے بھی (جھاڑ پھونک کرنے میں) کچھ حرج نہیں اور راز اس میں یہ ہے کہ اس میں ایک قسم کا افتقار وانکسار اور اظہارِ عبدیت واحتیاج ہے یا آپ نے بیانِ جواز کے لیے کیا ہو۔