اشرف العملیات - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بیعت ہوگیے۔ مجھے خبر ہوئی تو میںنے وہ بیعت ان سے علی الاعلان فسخ کرائی۔ اس کو خبر ہوئی تو اس نے کہا کہ میں چلہ کھینچتا ہوں دیکھنا چالیس دن میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہلا بھیجا کہ اسّی دن میں بھی کچھ نہ ہوگا۔ بعد میں اس نے کچھ کیا ہوگا۔ مگر پھر ہوا یہ کہ وہ شخص ایسا نرم ہوا کہ کبھی کبھی خط بھی بھیجا۔ اس سے میں نے سمجھا کہ غالباً اس نے کچھ کیا ہوگا جب کچھ نہ ہوا تب وہ ڈھیلا ہوا۔3بزرگ اور تعویذ آج کل سب سے بڑا بزرگ وہ سمجھاجاتا ہے جو خوابوں کی تعبیر دیتا ہو، یا جیسا کوئی تعویذ مانگے ویسا وہ تعویذ دے دیتا ہو۔ اور اگر کوئی کہہ دے کہ بھائی ہم تو تعویذ گنڈے جانتے نہیں تو یا تو اسے کہیں گے کہ یہ جھوٹا ہے۔ بھلا کوئی بزرگ بھی ایسا ہوسکتا ہے کہ جو تعویذ نہ جانتا ہو؟ اور اگر اسے سچا سمجھیں گے تو کہیں گے کہ ارے یہ بزرگ وزرگ کچھ نہیں، اگر بزرگ ہوتے تو تعویذ لکھنا نہ جانتے؟ پھر اگر تعویذ دیا اور (اس سے فائدہ نہ ہوا) مثلاً بیمار اچھا نہ ہوا تو تعویذ دینے والے کی بزرگی ہی میں شک ہونے لگتا ہے کہ اگر یہ بزرگ ہوتے تو کیا تعویذ میں اثر نہ ہوتا؟ حالاں کہ اچھا ہوجانا (اور تعویذ سے فائدہ ہوجانا) کچھ بزرگی کی وجہ سے تھوڑی ہوتا ہے بلکہ جس کی قوتِ خیالیہ قوی ہوتی ہے اس کے تعویذ میں زیادہ اثر ہوتا ہے۔یہاں تک کہ اگر کوئی شخص بہت زیادہ قوتِ خیالیہ رکھتا ہو تو اس کے محض سوچنے ہی سے جاڑا بخار اترجاتا ہے چاہے وہ کافر ہی ہو، بزرگی کا اس میں کچھ دخل نہیں۔ لیکن آج کل لوگ تصرفات کو بڑی بزرگی سمجھتے ہیں کہ ایک نگاہ دیکھا تو دھڑ سے نیچے گرگیا۔ (بزرگی تو نام ہے اتباعِ شریعت، اتباعِ سنت کا، خواہ کوئی تصرف وکرامت ظاہر نہ ہو۔) 1 یہ ساری خرابی بزرگوں کے اخلاق کی ہے کہ چاہے سمجھ میں آئے یا نہ آئے کچھ نہ کچھ خواب کی تعبیر ضرور دے دیتے ہیں اور کوئی نہ کوئی تعویذ ضرور لکھ دیتے ہیں تا کہ درخواست کرنے والا ہماری بزرگی کا معتقد رہے۔ یہ بات خیر الحمد للہ اہلِ حق میں نہیں ہے۔ لیکن یہ خیال کرکے کہ اس کا دل نہ ٹوٹے لاؤ کچھ کردیں (یعنی کچھ نہ کچھ تعویذ دے ہی دیں) اس میں اہلِ حق بھی محتاط نہیںالا ما شاء اللہ۔ اور صاف جواب اس لیے نہیں دیتے کہ اس کا دل ٹوٹے گا۔ سو اب چوں کہ ہر تعویذ کی درخواست پر اور کچھ تو جواب ملتا نہیں (بلکہ تعویذ ہی ملتا ہے) اس لیے ان چیزوں کو بھی لوگ بزرگی میں داخل سمجھنے لگے۔ یہ اخلاق کی خرابی ہوئی۔ میں کہتا ہوں کہ اگر دل شکنی کو بھی دل گوارا نہ کرے اور صاف جواب نہ دے سکیں تو کم از کم ایک بات تو ضروری ہے وہ یہ کہ یوں کہہ دیا کریں کہ اس کا تعلق دین سے تو کچھ نہیں ہے لیکن خیر تمہاری خاطر سے تعویذ دے دیتا ہوں، باقی اثر